وہ بھی اب یاد کریں کس کو منانے نکلے؟

ہم بھی یونہی تو نہ مانے تھے ، سیانے نکلے

میں نے محسوس کیا جب بھی کہ گھر سے نکلا

اور بھی لوگ کئی کر کے بہانے نکلے

آج کی بات پہ میں ہنستا رہا ہنستا رہا

چوٹ تازہ جو لگی درد پرانے نکلے

ایک شطرنج نما زندگی کے خانوں میں

ایسے ہم شاہ جو پیادوں کے نشانے نکلے

تو نے جس شخص کو مارا تھا سمجھ کر کافر

اس کی مٹھی سے تو تسبیح کے دانے نکلے

کاش ہو آج کچھ ایسا وہ مرا مالک دل

میرے دل سے ہی میرے دل کو چرانے نکلے

آپ کا درد ان آنکھوں سے چھلکتا کیسے؟

میرے آنسو تو پیازوں کے بہانے نکلے

میں سمجھتا تھا تجھے ایک زمانے کا مگر

تیرے اندر تو کئی اور زمانے نکلے

لاپتہ آج تلک قافلے سارے ہیں امیرؔ

جو تیرے پیار میں کھو کر تجھے پانے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]