وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیِ دل و جاں نہیں

کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک ’نہیں‘ کہ وہ ہاں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں

وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر

جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

کرے مصطفیٰ کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں

کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی! ارے ہاں نہیں، ارے ہاں نہیں

تِرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منھ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں

کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو

مگر اے مدینے کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں

ہے انھیں کے نور سے سب عیاں ہے انھیں کے جلوے میں سب نہاں

بنے صبح تابشِ مہر سے رہے پیشِ مہر یہ جاں نہیں

وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انھیں سے سب ہے انھیں کا سب

نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے

وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر

ملکوت و مُلک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا

دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں

تِرا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے

نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا

کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدحِ اہلِ دُوَل رضؔا پڑے اس بلا میں مِری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]