وہاں حضور کے خدّامِ آستاں جائیں

جہاں کبھی نہ سلاطین کے گماں جائیں

ہوئے نہ منّتِ اغیار کے کبھی قائل

’’ فقیر آپ کے در کے ہیں ہم کہاں جائیں ‘‘ ؟

ثنائے صاحبِ خلقِ عظیم کا ہے اثر

کہ آئیں خوبیاں ناعِت میں ، خامیاں جائیں

ترے غلام کلیمی کے بِن ترے صدقے

بناتے راستے دریا کے درمیاں جائیں

ثنائے جانِ حلاوت ہے ورد جب اپنا

تو پھر حیات سے کیونکر نہ تلخیاں جائیں

دخولِ خلد سے پھر ان کو کون روکے گا

اگر حضور کہیں بہرِ مجرماں ” جائیں ”

بس ایک ہی تو درِ رحمتِ جہاں ہے جہاں

سنانے قصّہٕ آلام بے زباں جائیں

عروجِ محفلِ حسان کو نظر نہ لگے

حضور اہل ثنا کی نہ یاریاں جائیں

مشاعروں میں فقط اپنا احترام نہیں

بہ فیضِ نعت معظم ہیں ہم جہاں جائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]