پا ہی گئی ہے خاک ٹھکانہ ، خاکِ ازل کی پرتوں میں

رزقِ مسافت ٹھہرے ہیں ہم جذب ہوئے ہیں رستوں میں

آج بھی ہے میراثِ جنوں میں دِل کو خیانت نا ممکن

یوں تو عیب ہزاروں ہوں گے ہم ایسے کم بختوں میں

آؤ ، عمر کے عرشے سے کچھ دیر سمندر کو دیکھیں

آخر کو تبدیل سفینہ ہو جانا ہے تختوں میں

تم نے بس تلچھٹ چکھی ہے سوکھتے خواب کے امرت کی

تم نے رنگ کہاں دیکھے اِس روپ کے اگلے وقتوں میں

اک امید کا لیپ کیا ہے ، برسوں عمر کی تختی پر

سینت کے برسوں تک رکھا اک خواب یقیں کے بستوں میں

ہم درویش صفت کیا بیٹھیں وصل کی اونچی مسند پر

تم اصنام کہاں پاؤ گے ہم اصنام پرستوں میں

وقت کو جیسے ایڑ لگا دی ہو تکلیف کی شدت نے

بیت گئی ہیں ناصر جیسے ہجر کی صدیاں ، ہفتوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]