پائی ہے جس نے دولت نسبت حسین سے

کیوں کر نہ پائے وہ گل نصرت حسین سے

اسلام کو حسین نے بخشی ہے زندگی

باقی ہے آبروئے شریعت حسین سے

باطل کا سر جھکا دیا عزم حسین نے

ہے اعتبارِ ہمت و جرأت حسین سے

زیر و زبر کیا ہے جہان نفاق کو

خائف ہے اب بھی سازشِ بیعت حسین سے

سجدہ زمین ظلم و ستم پر ادا کیا

پوچھے کوئی نماز کی عظمت حسین سے

حاصل ہمیں حلاوتِ ایماں ہے اس لیے

ہے قلب کو ہمارے مودت حسین سے

یاد حسین بزم تخیل کی روشنی

چہرے پہ زندگی کے ہے رنگت حسین سے

یہ بات مانتی ہے ہر اک شمع بے دریغ

ہے زندگی کی نبض میں حرکت حسین سے

سر کو کٹا کے دین کو کرنا ہے سرفراز

کہتی تھی مسکرا کے شہادت حسین سے

کہہ دو یزیدِ وقت نہ ہم کو دکھائے آنکھ

ہے خون میں ہمارے حرارت حسین سے

جب سے سنا ہے راکب دوشِ رسول ہیں

کچھ اور بڑھ گئی ہے عقیدت حسین سے

عشق نبی کی شمع ہے سینے میں ضوفگن !

ہوگی ضرور آپ کو الفت حسین سے

نواب شہ کے دستِ مبارک میں دے کے ہاتھ

کر لی ہے نورؔ میں نے بھی بیعت حسین سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]