پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں

تنہائی کی گھڑیاں اکثر ہم اس طرح گزارا کرتے ہیں

یہ عشق کے مارے بے چارے کب درد کا چارہ کرتے ہیں

ہر چوٹ کو سہتے ہیں ہنس کر، ہر زخم گوارا کرتے ہیں

وہ آگ کی بھٹی سے پہلے طالب کو گزارا کرتے ہیں

پھر کہہ کے خلیل اللہ اسے الفت سے پکارا کرتے ہیں

وہ عشرتِ ساحل کیا جانیں، گزرے نہ جو موجِ طوفاں سے

وہ لطفِ مسرت کیا جانیں ،جو غم سے کنارا کرتے ہیں

فتنہ کوئی تازہ ابھرے گا، طوفان کھڑا ہو گا کوئی

حالات اشارا کرتے ہیں اور صاف اشارا کرتے ہیں

دل خون ہوا ہو گا یونہی ، پھر ڈوب گیا ہو گا یونہی

ہم ڈوبتے سورج کا یونہی ہر روز نظارہ کرتے ہیں

اے دیکھنے والے دیکھ ذرا یہ فرقِ مزاجِ شمع و گل

وہ رو کے گزارے عمر اپنی ، یہ ہنس کے گزارا کرتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]