نے برسرِ افلاک نہ بر روئے زمیں ہے

مثل شہِ لولاک کسی جا بھی نہیں ہے

یوں تو رُخِ مہتاب بھی حد درجہ حسیں ہے

اس رخ سے تقابل ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہے

وہ تاجِ نبوّت کا درخشندہ نگیں ہے

وہ جان ہے ایمان کی وہ روحِ یقیں ہے

انساں کے تخیل سے پرے عرشِ بریں ہے

لیکن شبِ اسرا میں وہ بالذّات وہیں ہے

بستر ہے زمیں پر تو غذا نانِ جویں ہے

ہو کر شہِ کونین بھی وہ خاک نشیں ہے

جو تابعِ فرمانِ شہِ دینِ مبیں ہے

اللہ کی رحمت سے وہ حد درجہ قریں ہے

جو آپ کو سمجھے کہ نہیں ختمِ رُسُل آپ

ظالم ہے، وہ کافر ہے، وہ مردود و لعیں ہے

اس خُلق کی تعریف در امکانِ بشر کب

جس خُلق کی تحسین بہ قرآنِ مبیں ہے

معیارِ صداقت ہے وہ معیارِ امانت

دُشمن کی نگاہوں میں بھی صادق ہے امیں ہے

اللہ کے نزدیک وہی سب ہیں سر افراز

جس جس کی جھکی در پہ تِرے لوحِ جبیں ہے

اطرافِ زمانہ سے چلی دیکھنے دنیا

کس درجہ کشش رکھتی یہ طیبہ کی زمیں ہے

سب دین مٹے دہر سے تا حشر نظرؔ اب

تابندہ و محفوظ فقط آپ کا دیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]