چراغ نیند کی محراب تک نہیں آیا

قسم ہے آنکھ میں اک خواب تک نہیں آیا

سبھی نے شوقِ شہادت میں سر کٹا دئیے ہیں

کوئی بھی جنگ کے اسباب تک نہیں آیا

ہمارے عشق سے کیسے ملے جنوں کو فروغ

ہمارا عشق تب و تاب تک نہیں آیا

ابھی مشیتِ خالق نہیں پڑھی تونے ؟

ابھی تو سورہء احزاب تک نہیں آیا

وہ رنگ زنگ ہوا یا بنا دھواں آخر

جو رنگ اس لبِ نایاب تک نہیں آیا

بھرے ہیں مشکوں میں مشکیزگاں نے دریا تک

ہمارے ہاتھ میں تالاب تک نہیں آیا

ندی چڑھی ہے کئی بار میری آنکھوں کی

مگر یہ سلسلہ سیلاب تک نہیں آیا

بہت سے ہاتھ مجھے کھینچتے رہے دربار

مگر میں منصب و القاب تک نہیں آیا

عدو کے سامنے پھیلاؤں کس طرح حیدر

یہ ہاتھ تو کبھی احباب تک نہیں آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]