چراغِ شام جلا ہے کہ دل جلا کوئی

حصارِ ضبطِ فغاں سے نکل چلا کوئی

نہ کوئے یار میں آوارہ کوئی دیوانہ

نہ بزمِ یار میں باقی ہے منچلا کوئی

بدل گیا ہے سراسر مزاجِ اہلِ جنوں

نہ شوقِ مرگ نہ جینے کا ولولہ کوئی

سلامت آ گئے مقتل سے غازیانِ عشق

نہ سر گرے ہیں نہ خیمہ کہیں جلا کوئی

عجیب راہئ حق ہیں وہ جن کی راہوں میں

کوئی دمشق، نہ کوفہ، نہ کربلا کوئی

وہی تو جادۂ منزل ہے رہروانِ وفا

وہ رہگزار کہ جس پر نہیں چلا کوئی

فدائیانِ محبت کی بیعتیں ہیں الگ

امیر شہر سے کہہ دے یہ برملا کوئی

مآلِ کلمۂ حق سے ظہیؔر ڈر کیسا

صلیب و دار پہ مرتا بھی ہے بھلا کوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]