چشم در چشم اک آئینہ سجا رکھا ہے

ہر بُنِ مُو کو اسی کام لگا رکھا ہے

جب سے جانا کہ وہ اس راہ سے ہو کر گزرے

تب سے آنکھوں کو وہیں فرش بنا رکھا ہے

ان کے آنے کی خبر جب سے سنی ہے ہم نے

دل کے آنگن کو عقیدت سے سجا رکھا ہے

آج دھڑکن ہے یہ کیوں تیز ذرا تھم کے چلے

ان کی آہٹ پہ سماعت کو لگا رکھا ہے

بعد مرنے کے اسی شہر کی مٹی اوڑھیں

اک اسی آس پہ جیون کو بِتا رکھا ہے

ہوں کرم بار جو آقا بھی اسی ہی لمحے

اب قضا نے بھی تقاضے کو بڑھا رکھا ہے

ٹل ہی جائے گی مری آپ ہی مشکل نُوری

آلِ اطہر کو وسیلہ جو بنا رکھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]