چشمۂ جود و سخاوت ہیں ترے گیسوئے نور

قاسمِ نکہت و رنگت ہیں ترے گیسوئے نور

شانۂ نور پہ وہ چہرۂ انور کے قریں

خَم بہ خَم گوشۂ حیرت ہیں ترے گیسوئے نور

رنگ میں جیسے کوئی رنگوں کا بازار ُکھلے

حسن میں حدِّ نہایت ہیں ترے گیسوئے نور

تہہ بہ تہہ، معنیٰ بہ معنیٰ ہے کرشمہ سازی

مصدرِ عِلمِ بلاغت ہیں ترے گیسوئے نور

عکس پرور ہیں خد و خالِ کرم سے پیہم

رشکِ صد رنگِ صباحت ہیں ترے گیسوئے نور

حیطۂ فکر پہ ہے نور کے دھاروں کا نزول

نعت کا مصرعۂ طلعت ہیں ترے گیسوئے نور

پیکرِ حسن تو ہے نور اُجالوں کا امیں

اوجِ رنگت میں ملاحت ہیں ترے گیسوئے نور

اُن کو لکھے بھی تو مقصودؔ کہاں تک لکھے

مظہرِ نزہت و نْدرت ہیں ترے گیسوئے نور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]