چھوڑ دو اہل بیاں ، آہ و فغاں ، جیتے رہو

مار ہی ڈالے نہ احساس ِ زیاں ، جیتے رہو

میں نے سیکھا ہے اذیت میں بھی ہنستے رہنا

مجھ کو آتی ہے یہی ایک زباں ، جیتے رہو

یار یہ بار تو ہم سب نے اٹھایا ہوا ہے

زندگی ہو بھی اگر کوہِ گراں ، جیتے رہو

اے مرے ضبط پہ سب انگلی اٹھانے والو

میں تو دشمن کو بھی کہتی ہوں ، میاں ، جیتے رہو

بس وہی ماں کی دعائیں تھیں جو کام آتی تھیں

کوئی مشکل میں نہیں کہتا یہاں ، جیتے رہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]