چہرہ ان کا صبحِ روشن، گیسو جیسے کالی رات

باتیں اُن کی سبحان اللہ، گویا قرآں کی آیات

رُخ کا جلوہ پنہاں رکھا پیدا کر کے مخلوقات

حُسنِ ظاہر سب نے دیکھا، کس نے دیکھا حُسنِ ذات

جذبہ کی سب گرمی، سردی، بہتے اشکوں کی برسات

ہم نے سارے موسم دیکھے، ہم پر گزرے سب حالات

غم کی ساری چالیں گہری، بچتے بچتے آخر کار

دیکھا اس بے چارے دل نے بے بس ہو کر کھائی مات

جیتے جی کب دنیا پوچھے، مرتے ہی اِس درجہ پیار

ہاتھوں ہاتھ اٹھائے دنیا، لائے اشکوں کی سوغات

حسنِ خود بِیں جس کی فطرت، شیخی، شوخی، ظلم و جور

دامِ الفت میں پھنس جائے، میری آنکھوں دیکھی بات

عمرِ پایاں کی منزل میں عہدِ ماضی آئے یاد

اب بھی نظرؔ میں رقصاں میرے بھولے بچپن کے لمحات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]