کاجل

وقت نے جتنی مہلت دی تھی

اُس سے سوا محسوس کیا ہے

اپنی آنکھوں سے گالوں تک

اُس کا لمس سجا رکھا ہے

ایک گھڑی ایسی بھی گزری

جس نے درد اُجال دیا ہے

ہر اِک غم کو ٹال دیا ہے

میرے سوہنے ڈھول سائیں نے

کیسا اُسے کمال دیا ہے

اُس نے اپنے ہاتھ سے میری

آنکھ میں کاجل ڈال دیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]