کارِ دشوار کر رہا ہوں میں

عشق بیکار کر رہا ہوں میں

تیری تصویر مجھ سے لپٹی ہے

خود کو دیوار کر رہا ہوں میں

اس کہانی میں تجھ کو مرنا تھا

تیرا کردار کر رہا ہوں میں

اب نہ لانا مرا حوالہ کوئی

اپنا انکار کر رہا ہوں میں

اک ملاقات اس نے مانگی ہے

خود کو تیار کر رہا ہوں میں

کردہ ، ناکردہ سب گناہوں کا

آج اقرار کر رہا ہوں میں

دار کو سر پہ رکھ لیا میں نے

خود کو سر دار کر رہا ہوں میں

خود کو پہلے رہائی دی تھی زبیرؔ

اب گرفتار کر رہا ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]