کب سے اک سمت بلاتا ہے ستارا ہم کو

دیکھئے پھر سے کیا اسنے اشارا ہم کو

چل پڑے ہیں تری ہجرت کا تعاقب کرنے

نغمہِ بزم بلاتے ہوئے ہارا ہم کو

اب یہ عالم کہ سماعت پہ گراں گزرے ہیں

کل ترا جسم بھی کرتا تھا گوارا ہم کو

ہم کہ ناقابلِ تسخیر گنے جاتے تھے

وقت نے اور ہی ترکیب سے مارا ہم کو

تو نے منسوخ کیے دل کے صحائف یعنی

مسندِ عشق و عبادت سے اتارا ہم کو

تو بھرم رکھتے ہوئے اذنِ ہلاکت دے دے

یوں تو ابرو کا بھی کافی ہے اشارا ہم کو

پھٹ چکے کان خموشی کا دباؤ سہتے

تو بہت دیر میں ائے عشق پکارا ہم کو

تو سلامت ہو ترے رنگ ترے خواب جئیں

عجز نے تھک کے ترے روپ پہ وارا ہم کو

نہ کوئی گھاٹ نہ ساحل ہی بچانے آیا

لے گیا ساتھ ہی سیلاب کا دھارا ہم کو

سرو قد تھے سو زمیں بوس بصد شور ہوئے

ضبط دیتا ہی رہا لاکھ سہارا ہم کو

چاک کیا خاک سلیں گے کہ ستم گر تو نے

تار کے ساتھ ہی زخموں سے گزارا ہم کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]