کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں

کاغذ مڑا ہوا ہے پرانی کتاب میں

خلقِ خدا میں ٹھہری وہی سب سے معتبر

لکھی نہ جا سکی جو کہانی کتاب میں

طاقت ہے کس قلم میں کہ لکھے حدیثِ عشق

ملتی ہے یہ کسی سے زبانی کتاب میں

اربابِ جہل کرنے لگے شرحِ حرفِ عشق

مت کیجئے تلاش معانی کتاب میں

منشورِ حق کے ہوتے مجھے کیا غرض بھلا

لکھا ہے کیا فلاں نے فلانی کتاب میں

کیسے اٹھے گی دستِ سہولت شعار سے

ناموسِ حرف کی ہے گرانی کتاب میں

کاغذ خراب حال، عبارت اڑی ہوئی

دیکھو مری شکستہ بیانی کتاب میں

فیضِ قلم سے آ گئی مجھ کو بھی اب ظہیرؔ

اشکوں کی آبشار بنانی کتاب میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]