کثرتِ اولاد

کثرتِ اولاد سے ہم اس قدر بیزار ہیں

اب تو بیگم سے الگ رہنے کو بھی تیار ہیں

اب یہ عالم ہے کہ جس کمرے میں بھی ڈالو نظر

گھر کے ہر کونے میں ہیں بکھرے ہوئے لخت جگر

اپنی بیگم پر ہوئے شام و سحر ہم یوں نثار

پوسٹروں کی شکل میں رسی پہ لٹکا ہے وہ پیار

جس طرف بھی دیکھیے اولاد ہی اولاد ہے

خانہ آبادی کے بعد اب خانۂ برباد ہے

سرد آہیں دیکھ کر بیگم کو ہم بھرنے لگے

مسکرا کر دیکھنے سے ان کے ہم ڈرنے لگے

چڑچڑے کچھ اس قدر ہم ہو رہے ہیں آج کل

رکھ کے خنجر درمیاں میں سو رہے ہیں آج کل

خون کے آنسو ہم اپنے حال پر رونے لگے

پہلے سنگل ہو رہے تھے اب ڈبل ہونے لگے

مجھ کو یہ ڈر ہے کبھی شیطان بہکانے لگے

ہم میاں بیوی قریب آنے سے کترانے لگے

ہم کسی تقریب میں ہوں یا کسی بارات میں

لوگ ڈر جاتے ہیں بچے دیکھ کر ہی ساتھ میں

دیکھ کر لوگوں کا غصہ کتنے گھبرائے تھے ہم

اپنے بچوں کی جگہ ان کے اٹھا لائے تھے ہم

ساس بھی اب تو ہمیں کچھ دن کو بلواتی نہیں

اور بیگم بھی بنا بلوائے خود جاتی نہیں

اس دفعہ پھر جب ولادت کا ہوا تھا سلسلہ

آ گئے آنکھوں میں آنسو میں نے رو کر یوں کہا

میرے گھر میں تو بہت پہلے ہی سے بھر مار ہے

اور تو دنیا میں آنے کے لیے تیار ہے

ٹال دے اپنی ولادت اور کچھ دن کے لئے

تو نے ہم سے کون سے بدلے یہ گن گن کے لیے

کیا کہوں حالات اپنے آج کل ایسے نہیں

اب تو مرنے کے لئے بھی جیب میں پیسے نہیں

کوئی بیماری اگر آ جائے تو جاتی نہیں

خرچ کے ڈر سے ہمیں تو موت بھی آتی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو پرلے درجے کا فول ہے پیارے واہ یہ تیرا زرق برق لباس گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے مجھ کو بلوائیو ڈنر کے […]

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]