کر دیا زار غم عشق نے ایسا مجھ کو

موت آئی بھی تو بستر پہ نہ پایا مجھ کو

کبھی جنگل کبھی بستی میں پھرایا مجھ کو

آہ کیا کیا نہ کیا عشق نے رسوا مجھ کو

دشمن جاں ہوا در پردہ مرا جذبۂ عشق

منہ چھپانے لگے وہ جان کے شیدا مجھ کو

روز روشن ہو نہ کیوں کر مری آنکھوں میں سیاہ

ہے ترے گیسوئے شب رنگ کا سودا مجھ کو

روز و شب شوخ نے کیا کیا نہ دکھائے نیرنگ

رخ دکھایا کبھی گیسوئے چلیپا مجھ کو

دن بھلے آئے تو اعدا سبب خیر ہوئے

بد دعا نے کیا اغیار کی اچھا مجھ کو

فخر سے بزم بتاں میں وہ کہا کرتے ہیں

پیار کچھ روز سے اب کرتے ہیں رعناؔ مجھ کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]