کس اوج ، کس عروج پہ رتبہ علی کا ہے

جو کچھ ہے مصطفیٰ کا ، وہ سارا علی کا ہے

آفاق ہیں علی کے اجالا علی کا ہے

ہنستا ہے جس میں چاند دریچہ علی کا ہے

الٹے گا بے وفائی کے چہرے سے یہ نقاب

مسلم ہے اِس کا نام ، بھتیجا علی کا ہے

واللہ مصطفیٰ کی توجہ کے فیض سے

ہیں ساعتیں علی کی ، زمانہ علی کا ہے

رہتے ہیں جس میں ہم، وہ جہاں ہے رسول کا

کھانے کو جو ملے ، وہ نوالہ علی کا ہے

ہم جس میں ہاتھ دھوئیں نہائیں اٹھائیں فیض

بہتا ہوا کرم کا وہ دریا علی کا ہے

قدموں کو جس کے چوم رہا ہے لب فرات

عباس اس کا نام ہے بیٹا علی کا ہے

لوٹا علی کے واسطے تاریخ ہے گواہ

سورج بھی ایک چاہنے والا علی کا ہے

لکھا ہوا ہے لو پہ علیِ ولی کا نام

یعنی چراغ بزم تمنا علی کا ہے

لے جائے گا نقوش قدم تک رسول کے

میں جس پہ چل رہا ہوں وہ رستہ علی کا ہے

نواب شہ کو دیکھ کے کہنے لگی نگاہ

اے نورؔ ہو بہو یہ سراپا علی کا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]