کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا

کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا

جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیلِ راہِ نجات تھا

اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا

میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا

ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا

ترے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی

میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

ترے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا

مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا

کبھی اے عنایتِ کم نظر ! ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی

جو تبسمِ رخِِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]