آخر غبارِ دشتِ ہزیمت میں ڈھے گئے

عشاقِ کم نصیب تری جستجو میں تھے

اب ان کا زکر بھی نہ رہا داستان میں

کل جو محاوروں کی طرح گفتگو میں تھے

خواہش کے ساتھ ساتھ فراموش ہو گئے

جو خوش گمان لوگ تری آرزو میں تھے

اک برف سی رواں ہے رگ و پے میں آجکل

رقصاں کبھی جنون کے شعلے لہو میں تھے

آنکھوں میں خونِ خوابِ وفا نقش ہو گیا

ورنہ ہزار رنگ غمِ سرخرو میں تھے

روشن ہوئے نہ پھر کسی آواز سے چراغ

مانا کہ لاکھ عیب ترے خوش گلو میں تھے

جس وقت چاکِ زخمِ انا سی رہے تھے تم

ریشے مرے بدن کے بھی تارِ رفو میں تھے

ناصر کہولتوں کا زمانہ ہے کیا کریں

وہ ولولے کہاں کہ جو عہدِ نمو میں تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]