بنا ہے آپ سبب اپنی جگ ہنسائی کا

جو مشتِ خاک نے دعویٰ کیا خدائی کا

وہی ہے حال نگاہوں کی نارسائی کا

وہ سامنے ہیں پہ نقشہ وہی جدائی کا

تمہارے در کے سوا میں کسی جگہ نہ گیا

مجھے تو شوق نہیں قسمت آزمائی کا

یہی زمانہ مٹانے پہ تل گیا مجھ کو

جسے تھا ناز کبھی میری ہم نوائی کا

اسی نے غرق مجھے کر دیا یہی ہے وہ دل

نہ اشتباہ تھا جس پر کسی برائی کا

ہے اپنی آنکھوں میں طوفانِ اشک اے غمِ دل

ترا حساب چکاتا ہوں پائی پائی کا

یہ حسنِ غیر پہ ریجھے بدل گئے ایسے

دل ونگاہ سے شکوہ ہے بے وفائی کا

جو عاصیوں کا سہارا نظرؔ ہے روزِ حساب

مجھے بھی فخر اسی کی ہے مصطفائی کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]