بن کے پنچھی میں کاش اڑا ہوتا
اور طیبہ میں جا بسا ہوتا رشک وہ جس پہ یہ جہاں کرتا اس بلندی پہ مرتبہ ہوتا
معلیٰ
اور طیبہ میں جا بسا ہوتا رشک وہ جس پہ یہ جہاں کرتا اس بلندی پہ مرتبہ ہوتا
تاب زمیں کب لا سکتی تھی ان کا اگر پڑتا سایہ روئے زمیں پر پاؤں کہاں رکھ سکتے تھے دنیا والے جانتے جب کہ اس جا پڑا تھا آقا کا یکتا سایہ
پُر ضیاء قلب کا نگینہ ہو اور کچھ بھی نہ ہو فداؔ اس میں دل میں یادِ شہِ مدینہ ہو
نہیں گوہروں سے یہ اشکِ مبیں کم ہمیں ناز ہے سلسلے پہ ہمارے الف سے چلے ختمی پر ہوئے ہم