دیکھا صنم کدوں کو تو اکثر ہوا خیال
وہ نقش جاوداں تھے جو پتھر میں رہ گئے
معلیٰ
وہ نقش جاوداں تھے جو پتھر میں رہ گئے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے
اب تو ہر موجِ بلا تحفۂ خوں مانگتی ہے
دل ہمارا جس پہ آیا تھا وہ انساں کون تھا
صداقت کی رجز خوانی کے دن ہیں
کب امیدِ سحاب رکھتے ہیں
اور ہم شکوۂ تنہائی لیے بیٹھے ہیں
اب کسی سے کوئی شکوہ نہ گلہ ہو جیسے
ہم خود اسیر ہو کے کُھلے گھر میں رہ گئے
ایک تقسیم کا اندوہ و محن یاد نہیں