انجام
ایک لڑکا اور لڑکی دونوں ہی اِک دوسرے کو چاہتے تھے پیار کی سچّائیوں سے پوجتے تھے روح کی گہرائیوں سے مانگتے تھے رب سے جیون میل سنگت کی دعائیں جو کہ پوری ہو نہ پائیں لڑکا جل کر مر گیا اور لڑکی زندہ رہ گئی آنسو بہانے کو کسی کا گھر بسانے کو بچاری!
معلیٰ
ایک لڑکا اور لڑکی دونوں ہی اِک دوسرے کو چاہتے تھے پیار کی سچّائیوں سے پوجتے تھے روح کی گہرائیوں سے مانگتے تھے رب سے جیون میل سنگت کی دعائیں جو کہ پوری ہو نہ پائیں لڑکا جل کر مر گیا اور لڑکی زندہ رہ گئی آنسو بہانے کو کسی کا گھر بسانے کو بچاری!
میری کچی عمر کی چاہت تمہیں معلوم ہوگا اِس کنواری عمر کی چاہت کے سارے نقش سارے رنگ پکے،دیرپا انمٹ،امر ہوتے ہیں میں تم کو بھلا دیتا مگر یہ غیر ممکن ہے
ابھی دو(۲) دن گزرنے دو دسمبر کے کہیں ایسا نہ ہو پھر حادثہ اِک رونما ہو جائے ہم تم ایک دوجے سے بچھڑ جائیں دسمبر اب کے ہے سفّاک اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے مجھ کو لمحہ لمحہ ایک خدشہ ہے ابھی گھر میں ہی تم بیٹھی رہو بہتر ہے مجھ سے مت […]
میرے قدم قدم پہ سزا تھی سزا کے ساتھ اِک طاق پر چراغ جلانے کی چاہ میں کرنی پڑی ہے دوستی ہم کو ہوا کے ساتھ سوتا ہوں روز رات کو آغوشِ آہ میں ہر صبح جاگتا ہوں کسی بدعا کے ساتھ کیسے کرو گے اُس کی وفا کا یقین تم کوئی جو چل پڑا […]
کل کو میرے بچوں پر یہ واضح ہوگی ساری صورت سوچیں گے وہ ملتی ہے کیوں ؟ اُن کے ساتھ تمہاری صورت
مِرا اندر تلک مہکا گیا ہے وہ جو روشن تھا میرے فن کا سورج جُدائی میں تِری گہنا گیا ہے عقیدت ہو گئی بدنام ناحق نہ تیرا کچھ ، نہ کچھ میرا گیا ہے سکونِ قلب ، کاروبار ، شہرت تمہارے واسطے کیا کیا گیا ہے اچانک رُک گئی ہے زندگی کیوں؟ مجھے اِک نقطے […]
شاید پلکوں پر اُمڈے یہ بادل چھٹ جاتے میں کچّا رستہ وہ پکّی سڑکوں کا عادی مجھ پر چلتا کیسے پاؤں دھول سے اَٹ جاتے تم نے سوچا ہی کب اپنی انا سے آگے کچھ ورنہ بیچ کے فاصلے گھٹتے گھٹتے گھٹ جاتے صبح سویرے تیرے رستے میں جا بیٹھتے ہم شام سمے تیرے پیچھے […]
کیا خبر ہم دستکیں دیں اور شنوائی نہ ہو کیا پتہ بارانِ رحمت کا گذر محلوں سے ہو کیا خبر کچّے مکانوں پر گھٹا چھائی نہ ہو کیا پتہ جل جائیں سورج کی تمازت سے بدن کیا خبر انجام اِس جذبے کا رسوائی نہ ہو کیا پتہ اپنوں میں کوئی رنگ میرا ناں ملے کیا […]
میں جسے اپنا خواب سمجھا تھا دو گھڑی کو وہ پاس ٹھہرا تھا کون جانے وہ شخص کیسا تھا دیکھ آنگن میں تیرے چمکا ہے میری قسمت کا جو ستارہ تھا آج اُس نے بھی خود کشی کر لی جس کو مرنے سے خوف آتا تھا گھُل گئی ساری تلخی لہجے کی چائے کا ذائقہ […]
وہاں پہ دھوپ دھری ہے جہاں پہ سائے تھے پھر اُس کے بعد نَدی میں اُتر گیا تھا چاند بس ایک بار ستارے سے جھلملائے تھے نجانے گھاس کناروں کی کیوں نہیں چمکی دیئے جلا کے تو ہم نے بہت بہائے تھے لہولہان ہیں جن سے تمام شہر کے لوگ کوئی بتائے یہ پتھر کہاں […]