گہری نیند (سیلاب کے موقع پر لکھی گئی ایک نظم)

مانجھیوں کا تھا رزق جو پانی اب انہیں کو ڈبو رہا ہے کیوں؟ جاگ اُٹھاّ چناب پھر شاید موت ہے لہر لہر پانی کی پیاس سب کی بُجھانے والایم بھُوک اپنی مٹا رہا ہے اب ہر کوئی سر جھُکا رہا ہے اب بستیاں سو گئی ہیں گہری نیند

تِرا مفاد بھی ہم کو دکھائی دیتا ہے

وگرنہ کون کسی کو بھلائی دیتا ہے کبھی غریب کو عزت گنوانی پڑتی ہے کبھی لگان میں پوری کمائی دیتا ہے مِری ہی سوچ کی چاندی ہے میرے بالوں میں قلم کو میرا لہو روشنائی دیتا ہے کبھی جھمیلے سے باہر نکل سکے تو سُن وہ غدر جو مِرے اندر سنائی دیتا ہے مِرا ہی […]