دل بضد تھا کہ مجھے غم سے پِگھل جانے دے
پھر تری یاد نے سمجھایا کہ چل جانے دے
معلیٰ
پھر تری یاد نے سمجھایا کہ چل جانے دے
آخری سانس بھی اُن کے نام
کس راہ پہ چلنا ہے یہ سوچا نہیں کرتے
چمن سے توڑنا پھول اور ویرانے میں رکھ دینا تمام اسرارِ الفت کا بیاں بھی جرم ہے حیدرؔ کچھ اپنے دل میں رکھ لینا کچھ افسانے میں رکھ دینا
یہ رسم حسن میرے گریباں سے چلی ہے
تم ہر اک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو
میرے لیے تو بادِ صبا ہو گیا وہ شخص
ہم التفاتِ دلِ دوستاں سے دور رہے
ہم چھپاتے ہی رہے دل کا ملال
وہ آدمی کا عکس ہے اصل بشر نہیں