فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے

آئے گر حسنِ خیال، اس کو سنبھال اچھا ہے میرے احساسِ خودی پر نہ کوئی زد آئے تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے آپ مانیں نہ برا گر، تو کہوں اے ناصح صاحبِ قال سے تو صاحبِ حال اچھا ہے بے خیالی نہ رہے، خام خیالی سے بچوں دل میں بس […]

فیضیابِ حال ہے نے فکرِ مستقبل میں ہے

آدمی ہوش و خرد کی کون سی منزل میں ہے بات کر سکتے نہیں گو حشر برپا دل میں ہے تیری محفل میں ہیں جب تک دل بڑی مشکل میں ہے آخرت سے بے نیازی کیوں تمہارے دل میں ہے کون سا ایسا مزہ دنیائے آب وگل میں ہے ہر قدم طوفانِ غم ہے ہر […]

قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے

تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے مرا کوئی مونس شبِ […]

لغزشِ پا ترے کہنے پہ نہ چلنے سے ہوئی

ساری تکلیف مجھے راہ بدلنے سے ہوئی رات رو رو کہ کٹی شمع کی اللہ اللہ غم زدہ کیسی یہ پروانوں کے جلنے سے ہوئی نزع دم دیکھنے آئے مجھے طوعاً کرھاً ایک راحت تو طبیعت نہ سنبھلنے سے ہوئی مجھ کو تکلیف نہ پہنچی اسی باعث شاید ان کو راحت مرے جذبات کچلنے سے […]

محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم […]

مدتوں تک رِسا تھا پہلے بھی

زخم کاری لگا تھا پہلے بھی نام اُن کا لیا تھا پہلے بھی ہوش میں آ گیا تھا پہلے بھی تنِ تنہا اٹھا تھا پہلے بھی بند رستہ کھُلا تھا پہلے بھی آپ نے رہبری کے پردے میں یاد ہے کیا کیا تھا پہلے بھی آدمی آدمی کا خوں پی لے سچ کہیں کیا سنا […]

مرے عرضِ مدعا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے

وہ سمجھ کے بھی نہ سمجھیں تو یہ کیا ستم نہیں ہے مرے دل میں غم ہزاروں مگر آنکھ نم نہیں ہے یہ زمانہ کیسے مانے جو ثبوتِ غم نہیں ہے خلش، اضطراب و شورش کہ غم و الم نہیں ہے بہ طفیلِ عشق یعنی مجھے کیا بہم نہیں ہے زنقوشِ یادِ رنگیں گل و […]

موسمِ گل کے دور میں نالے یہ تھے ہزار کے

ہم ہیں اسیرِ باغباں، کیسے مزے بہار کے ان کی اذیتوں کو میں سب سے چھپا تو لوں مگر ان آنسوؤں کو کیا کروں، کب ہیں یہ اختیار کے لطف و کرم کی آس رکھ، ظلم و ستم اگر سہے صحنِ چمن میں گل بھی ہیں، پہلو بہ پہلو خار کے رندوں کی بادہ نوشیاں، […]

وہ حسن سراپا ہے، وہ مصدرِ رعنائی

میں عشقِ مجسم ہوں، میں چشمِ تماشائی یہ قوتِ گویائی، یہ سوچ کی گہرائی انساں کو ملی کیسی، دانائی و بینائی جو چیز بھی پائی ہے، وہ در سے ترے پائی لاریب تو آقائی، لاریب تو مولائی ہیں مہر بہ لب کلیاں، ہیں پھول بھی افسردہ غل ہے کہ بہار آئی، کیا خاک بہار آئی […]

ٹلتی ہی نہیں اب تو بلائیں مرے سر سے

مدت ہوئی رحمت کی گھٹاؤں کو بھی برسے طائر جو سرِ شاخ پہ بیٹھے ہیں نڈر سے کیا عہد کوئی باندھ لیا برق و شرر سے اب مجھ کو نہیں شغلِ مے و جام سے مطلب مخمور ہوا دل ترے فیضانِ نظر سے سو رازِ حقائق سے اٹھا دیتی ہے پردہ وہ ایک حقیقت کہ […]