دِل کو وہ سوزِ لذّتِ درد آشنائی دے
دھڑکن سے مجھ کو اسمِ محمد سنائی دے آئینۂ خیال کو ایسی صفائی دے میں لفظِ ’’شہر‘‘ سوچوں مدینہ دکھائی دے فکر و شعور کا وَرَقِ تازہ کھول دے یا رب! تُومجھ پہ علم کا دروازہ کھول دے
معلیٰ
دھڑکن سے مجھ کو اسمِ محمد سنائی دے آئینۂ خیال کو ایسی صفائی دے میں لفظِ ’’شہر‘‘ سوچوں مدینہ دکھائی دے فکر و شعور کا وَرَقِ تازہ کھول دے یا رب! تُومجھ پہ علم کا دروازہ کھول دے
مضمون میری فکر کا وہ نورِ لَم یزل اے ربِّ حرف و صَوت مری مشکلوں کا حل کوئی قصیدہ، کوئی رباعی، کوئی غزل ایسا بیاں جو لائقِ شانِ رسول ہو جو بارگاہِ مصطفوی میں قبول ہو
لائق ہیں اُس کی مدح سرائی کے میں نہ تُو وہ حد سے ماورا ہے، تو محصورِ چار سُو وہ بحرِ بے کنار، تو پایابِ آبجو لیکن اگر خدا ہمیں توفیق بخش دے حسَّانؓ کی زباں، دلِ صدیقؓ بخش دے
تعریف کا جو حق ہے وہ پورا نہ کر سکے انساں تو خیر کوئی فرشتہ نہ کر سکے ادراک جبرائیلؑ بھی ایسا نہ کر سکے لفظوں کی کیا مجال اسے لا کے رو برو قرطاسِ فن پہ کھینچ دے تصویر ہو بہُو
صدیوں زماں مکاں کو رہی اس کی جستجو بے چین گلشنوں میں صبا، جنگلوں میں لُو اُس کے ظہور کے لئے بے کل تھے چار سُو تسکینِ کائنات کا پیغام آ گیا وہ آ گیا تو زیست کو آرام آ گیا
تاروں کی ضوفشانیاں راتوں کی جھیل پر مہتاب کی کہانیاں قرطاسِ نیل پر کمزور کی نشانیاں اصحابِ فیل پر سیّد رسولِ ہاشمی ذی جاہ کے لئے تھا سارا اہتمام اُسی شاہ کے لئے
برگِ گلاب و نورِ چراغ و شرارِ سنگ موجیں، ہوا، پرنّد، بھنور، مچھلیاں، نہنگ الفاظ، صَوت، گفتگو، مضراب، جلتر نگ پنہاں نظر سے تھا جو ہویدا کیا گیا سب کچھ اُسی کے واسطے پیدا کیا گیا
بخشی خدا نے اپنی تجلّی حضور کو دیکھا جو خاص ذاتِ الٰہی کے نور کو شرمندگی سی ہونے لگی کوہِ طُور کو فرمایا رب نے طُور کے آثار دیکھ کر ’’دیتے ہیں بادہ، ظرفِ قدح خوار دیکھ کر‘‘
کیا کیا نہ شاد ماں ہوئے صحرا و دشت و راغ کون و مکاں کی بزم ہوئی ایسی باغ باغ رب نے جبینِ صبح پہ رکھا نہ کوئی داغ رفتارِ شب کو خوئے نسیمِ بہار دی لمحات کی رگوں میں سے بجلی گزار دی
ایمان کی گھڑی تھی عبادت کا وقت تھا ساعت تھی آگہی کی بصیرت کا وقت تھا ربِّ صَمَدْ کی خاص عنایت کا وقت تھا جب کی دُعا خدا سے، خدا کے خلیلؑ نے دم بھر کو سانس روک لیا جبرائیلؑ نے