دِل کو وہ سوزِ لذّتِ درد آشنائی دے

دھڑکن سے مجھ کو اسمِ محمد سنائی دے آئینۂ خیال کو ایسی صفائی دے میں لفظِ ’’شہر‘‘ سوچوں مدینہ دکھائی دے فکر و شعور کا وَرَقِ تازہ کھول دے یا رب! تُومجھ پہ علم کا دروازہ کھول دے

لب کی اُمنگ، دل کی طلب، جاں کی آرزو

صدیوں زماں مکاں کو رہی اس کی جستجو بے چین گلشنوں میں صبا، جنگلوں میں لُو اُس کے ظہور کے لئے بے کل تھے چار سُو تسکینِ کائنات کا پیغام آ گیا وہ آ گیا تو زیست کو آرام آ گیا

جذبوں میں جوش، دل میں تمنّا، دھنک میں رنگ

برگِ گلاب و نورِ چراغ و شرارِ سنگ موجیں، ہوا، پرنّد، بھنور، مچھلیاں، نہنگ الفاظ، صَوت، گفتگو، مضراب، جلتر نگ پنہاں نظر سے تھا جو ہویدا کیا گیا سب کچھ اُسی کے واسطے پیدا کیا گیا

غارِ حرا کے طاق پہ گھی کے جلے چراغ

کیا کیا نہ شاد ماں ہوئے صحرا و دشت و راغ کون و مکاں کی بزم ہوئی ایسی باغ باغ رب نے جبینِ صبح پہ رکھا نہ کوئی داغ رفتارِ شب کو خوئے نسیمِ بہار دی لمحات کی رگوں میں سے بجلی گزار دی

فرّخ تھا لمحہ، صبحِ سعادت کا وقت تھا

ایمان کی گھڑی تھی عبادت کا وقت تھا ساعت تھی آگہی کی بصیرت کا وقت تھا ربِّ صَمَدْ کی خاص عنایت کا وقت تھا جب کی دُعا خدا سے، خدا کے خلیلؑ نے دم بھر کو سانس روک لیا جبرائیلؑ نے