یہ کائنات جسم ہے اور جان اس کی ذات
ہستی ہے اک کتاب تو عنوان اس کی ذات انسانیت پہ رب کا ہے احسان اس کی ذات رُوئے زمیں پہ مستقل فیضان اس کی ذات سوزو سُرور عالم امکاں اسی سے ہے انساں اسی سے، عزّتِ انساں اسی سے ہے
معلیٰ
ہستی ہے اک کتاب تو عنوان اس کی ذات انسانیت پہ رب کا ہے احسان اس کی ذات رُوئے زمیں پہ مستقل فیضان اس کی ذات سوزو سُرور عالم امکاں اسی سے ہے انساں اسی سے، عزّتِ انساں اسی سے ہے
رنگین مُشک بار ہوائیں اُسی سے ہیں برکھا رُتوں کی کالی گھٹائیں اُسی سے ہیں شاخوں پہ طائروں کی صدائیں اُسی سے ہیں شبنم کے آئینوں میں بصارت اُسی سے ہے خورشیدِ ضوفشاں میں حرارت اُسی سے ہے
وہ با وقار نام ہے عنوانِ زندگی وہ رونقِ بہارِ گلُستانِ زندگی آرائشِ جمالِ شبستانِ زندگی پانی کی لہر ، موجِ ہَوا اُس کے دم سے ہے تابندگیٔ ارض و سما اُس کے دم سے ہے
رشکِ جمالِ یوسفِ یکتا کہیں اُسے جس میں ازل ابد ہوں وہ لمحہ کہیں اُسے کیسے نہ دو جہاں کا خلاصہ کہیں اُسے جنبش میں ہے جہان کی نبضِ حیات میں وہ مرتعش ہے خونِ رگِ کائنات میں
ساری سیاستوں کی کلیدیں اُسی کے پاس سارے علوم ہیں اُسی اُمیّ سے اقتباس ساری شعاعیں ہیں اُسی سورج کا انعکاس تزئینِ رنگِ عالمِ ایجاد ہے وہی تہذیب کے ستون کی بنیاد ہے وہی
ذوالاحتشام ، صاحبِ لولاک اس کا نام توسیعِ فکر ، رونقِ ادراک اس کا نام توقیرِ ارض ، زنیتِ افلاک اس کا نام بعد از خدا جہان میں ہے پاک اس کا نام ہر حرف اس کے نام کا عزّت مآب ہے اس ذاتِ محترم کا وجود الکتاب ہے
لمحہ نہ کوئی وقت نہ ساعت نہ کوئی پَل فرہاد کوئی قیس نہ وامق نہ کوئی نَل باہر حدوں سے اسکی نہ میداں نہ کوئی جَل قائم جہاں جہاں مرے رب کی خدائی ہے سردارِ انبیا کی وہاں مصطفائی ہے
وہ رمزداں ہے کُن کی نوا ہائے ساز کا محرم ہے وہ مظاہرِ فطرت کے راز کا اُنگلی سے موڑ لائے وہ لمحہ نماز کا جس وقت چاہے کھینچ لے باگیں سحاب کی اُس کی گرفت میں ہیں رگیں آفتاب کی
اِک پَل میں اُس نے طے کئے رستے سنین کے جلنے لگے تھے پَر جہاں روح الامین کے ہیں اُس کے آگے سلسلے عینُ الیقین کے ثابت ہے سیرِ گنبدِ چرخِ کُبود سے وہ ماوریٰ ہے فکر و خرد کی حدود سے
اِس کی نظر کے آگے ہویدا ازل اَبد قطرہ ہے اُس کے سامنے ہر قلزمِ خرد جانے ہے وہ بحیرۂ دانش کے جزر و مَد بالا مقام اُس کی نگاہوں میں پَست ہے ارض و سَما کا فاصلہ لمحے کی جَست ہے