چاروں طرف محیط فضائیں اُسی سے ہیں

رنگین مُشک بار ہوائیں اُسی سے ہیں برکھا رُتوں کی کالی گھٹائیں اُسی سے ہیں شاخوں پہ طائروں کی صدائیں اُسی سے ہیں شبنم کے آئینوں میں بصارت اُسی سے ہے خورشیدِ ضوفشاں میں حرارت اُسی سے ہے

ذوالاحتشام، صاحبِ لولاک اس کا نام

ذوالاحتشام ، صاحبِ لولاک اس کا نام توسیعِ فکر ، رونقِ ادراک اس کا نام توقیرِ ارض ، زنیتِ افلاک اس کا نام بعد از خدا جہان میں ہے پاک اس کا نام ہر حرف اس کے نام کا عزّت مآب ہے اس ذاتِ محترم کا وجود الکتاب ہے

صحرا نہ کوئی دشت نہ روہی نہ کوئی تھل

لمحہ نہ کوئی وقت نہ ساعت نہ کوئی پَل فرہاد کوئی قیس نہ وامق نہ کوئی نَل باہر حدوں سے اسکی نہ میداں نہ کوئی جَل قائم جہاں جہاں مرے رب کی خدائی ہے سردارِ انبیا کی وہاں مصطفائی ہے

حیرت بجاں کُرے میں ابھی تک زمین کے

اِک پَل میں اُس نے طے کئے رستے سنین کے جلنے لگے تھے پَر جہاں روح الامین کے ہیں اُس کے آگے سلسلے عینُ الیقین کے ثابت ہے سیرِ گنبدِ چرخِ کُبود سے وہ ماوریٰ ہے فکر و خرد کی حدود سے