جلوہ ہے وہ صفاتِ خدائے غفور کا

وہ عبدہ ، کی شکل میں پیکر ہے نُور کا چمکا ہے جس کے دَم سے مقدّّر ظہور کا جس کے قدم کی خاک بھی سُرمہ ہے طُور کا راتوں کی ضَو ، دنوں کا اُجالا اُسی سے ہے دنیا میں روشنی کا حوالہ اُسی سے ہے

کیا مرتبہ بیاں کروں میں آنحضور کا

وہ قبلہ گاہِ قُدس ہے فہم و شعور کا خوراک جس کی جَو کی تھی بستر کھجور کا سَر اُس کے آگے جُھکتا ہے اہلِ غرور کا جاہ و جَلالِ تختِ حکومت نثار ہے اِس فقر پہ شہوں کی جلالت نثار ہے