کردار اُس کا حسنِ عمل کا جواب ہے
گفتار اُس کا فکر و بصیرت کا باب ہے وہ امن و آتشی کا مکمل نصاب ہے وہ چلتی پھرتی ایک سماوی کتاب ہے جاں حرف و علم و فکر نے اس پر نثار کی تصنیفِ آخریں ہے وہ پرورد گار کی
معلیٰ
گفتار اُس کا فکر و بصیرت کا باب ہے وہ امن و آتشی کا مکمل نصاب ہے وہ چلتی پھرتی ایک سماوی کتاب ہے جاں حرف و علم و فکر نے اس پر نثار کی تصنیفِ آخریں ہے وہ پرورد گار کی
صورت ، جمالِ نورِ الٰہی لئے ہوئے عادت ، پیمبری کی گواہی لئے ہوئے غربت ، جلال و شوکتِ شاہی لئے ہوئے لب ، بحرِ روشنی کا سفینہ کہیں جسے دل ، علم و آگہی کا مدینہ کہیں جسے
تحریرِ کائنات کا ابجد کہیں جسے انسانیت کی آخری سرحد کہیں جسے وہ پیکرِ جمیل محمد کہیں جسے ہر جنبشِ خیال بصیرت کا باب ہے وہ ربِّ آگہی کی مقدّس کتاب ہے
انسان جس کو سیدِّ نوعِ بشر کہے نوح و مسیح و خضر جسے راہبر کہے خود ربِّ ذی وقار جسے معتبر کہے خوشبوئیں جس عَرق سے سفر ابتدا کریں کرنیں اُسی کے نور سے کسبِ ضیا کریں
جس نام کے طفیل دعائیں ہیں مستجاب ہر سانس جس کی دفترِ انسانیت کا باب ہر لمحہ جس کی زندگی کا صاحبِ کتاب خوشبو ہے جس کی بادِ صبا کے سریر پر کندہ ہے جس کا نام سحر کے ضمیر پر
انصاف میں وہ ذات ہے میزان کی طرح آہنگ میں ہے سورئہ رحمن کی طرح اس کا ہر ایک فیصلہ قرآن کی طرح اِس کی کوئی نظیر ، نہ کوئی مثال ہے وہ شاہکار خالقِ حُسن و جمال ہے
اِک شہرِ لاحدود ہے دانائیوں کا وہ محرم ہے بحرِ قلب کی گہرائیوں کا وہ مرکز ہے کائنات کی پہنائیوں کا وہ وہ آب و خاک و باد کی تکوین کا سبب وہ گلشنِ حیات کی تزئین کا سبب
وہ عبدہ ، کی شکل میں پیکر ہے نُور کا چمکا ہے جس کے دَم سے مقدّّر ظہور کا جس کے قدم کی خاک بھی سُرمہ ہے طُور کا راتوں کی ضَو ، دنوں کا اُجالا اُسی سے ہے دنیا میں روشنی کا حوالہ اُسی سے ہے
وہ قبلہ گاہِ قُدس ہے فہم و شعور کا خوراک جس کی جَو کی تھی بستر کھجور کا سَر اُس کے آگے جُھکتا ہے اہلِ غرور کا جاہ و جَلالِ تختِ حکومت نثار ہے اِس فقر پہ شہوں کی جلالت نثار ہے
رحمت ہے جس کی سنگ سے لے کر حریر تک سایہ ہے جس کا پیادے سے لے کر وزیر تک جس اسمِ معتبر کی جڑیں ہیں ضمیر تک طہٰ و قؔ ہے وہی یٰسین ہے وہی شرحِ کلامِ سورئہ وَالتّین ہے وہی