ذہنوں کو سوچ، سوچ کو دانائی بخش دی
مُردوں کو جان، جاں کو مسیحائی بخش دی سینوں کو دِل دلوں کو توانائی بخش دی غربت کو فقر، فقر کو دارائی بخش دی افلاس کو وقار عطا کر دیا گیا مفلس کو اعتبار عطا کر دیا گیا
معلیٰ
مُردوں کو جان، جاں کو مسیحائی بخش دی سینوں کو دِل دلوں کو توانائی بخش دی غربت کو فقر، فقر کو دارائی بخش دی افلاس کو وقار عطا کر دیا گیا مفلس کو اعتبار عطا کر دیا گیا
بے رنگ آسمان کی قندیل نور بار دھرتی کا حُسن، چرخ کا سرمایۂ وقار بے چین زندگی کے لئے موجبِ قرار ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا وہی تو ہے گرداب ہے حیات، کنارا وہی تو ہے
اللہ کی رحمتوں کا برسنے لگا سحاب بنجر زمیں کی گود میں کھِلنے لگے گُلاب افکار کی رگوں میں مچلنے لگا شباب فاروق کر دیا گیا ابنِ خطابؓ کو شیرِ خدا کا نام مِلا بو ترابؓ کو
ذہنوں کی تیرگی کو اُجالا حضور نے خورشیدِ علم و فکر نکالا حضور نے انسانیت کو نور میں ڈھالا حضور نے ذرّے مثالِ ماہ چمک دار ہو گئے ہر تیرگی سے برسَرِ پیکار ہو گئے
زلفِ عروسِ ہستیٔ انساں سنوار دی ہر مرد و زن کی ذات مکرّم قرار دی ہر اِک خزاں زدہ کو نویدِ بہار دی آئینِ عدل کا وہ دَروبست کر دیا مظلومِ بے نوا کو زَبردست کر دیا
الفت میں خوں کے پیاسوں کی نفرت بدل گئی انساں تو کیا وحوش کی عادت بدل گئی آیا وہ انقلاب کہ قسمت بدل گئی چمکے سحر کے رنگ، رُخِ شام دُھل گئے انوارِ مصطفی سے در و بام دُھل گئے
شاخوں کے ننگے جسم کو قاقُم عطا ہوا کلیوں کو، کونپلوں کو، تبُّسم عطا ہوا سرما کی چاندنی کو ترنُّم عطا ہوا بے چین روحِ عَصر کو تسکین مل گئی کون و مکاں کو سورۂ وَالتّین مل گئی
جس ذرّے کو چُھوا مۂ انوار بن گیا ثابت کو مَس کیا تو وہ سیّار بن گیا جو بھی قدم اٹھا یا وہ معیار بن گیا تاثیر اُس کی سانس میں ہے کیمیائی کی اُس پر نظر لگی ہوئی ساری خدائی کی
باطل پہ برقِ قہر تھے ، اپنوں پہ مہربان وہ خوف ، وہ جلال ، وہ ہیبت کہ الامان لرزاں تھی جن سے قیصر و کسریٰ کی آن بان بازو تو اِک طرف یہ اثر تھا نگاہ کا دیکھا ذرا تو شق تھا کلیجہ سپاہ کا
اوہام کے ڈسے ہوئے وہ بے یقین لوگ وہ کج خیال لوگ ، وہ بارِ زمین لوگ فیضِ نبی سے ہو گئے وہ بہترین لوگ ہر شاخِ خشک ، شاخِ ثمردار ہو گئی گمراہ قوم ، قافلہ سالار ہو گئی