رگ و پے میں سمایا اسم ربی
خیالوں پر بھی چھایا اسمِ ربی مُنور ہیں فضائیں، خوشبوئیں ہیں ظفرؔ کیا رنگ لایا اسمِ ربی
معلیٰ
خیالوں پر بھی چھایا اسمِ ربی مُنور ہیں فضائیں، خوشبوئیں ہیں ظفرؔ کیا رنگ لایا اسمِ ربی
فضاؤں میں بھی سُن لو حمدِ باری ظفرؔ یادِ خدا میں وقت گزرے رہے حمدِ خدا سے اُستواری
جنم اِنسان کا، اللہ کی قدرت ظفرؔ بچوں کو دی ماں کی محبت کرم رحمان کا، اللہ کی قدرت
خدا نے کام ہر بگڑا سنوارا خدا کو جب بھی طوفاں میں پکارا بھنور میں ہو گیا پیدا کنارا
مقدس حجر اسود کو پیاپے چومنا اچھا ظفرؔ مخلوق کی خدمت کرو، راضی خدا ہو گا خدا کا فیض پاکر، شکر کرنا جھومنا اچھا
خدا کی یاد میں ہر پل گزارو دگرگوں حالتِ اُمت سنوارو خدا کے دین پر جاں اپنی وارو
خدایا شُکر کے جذبات عطا کر خدارا حمد کہنے کا سلیقہ پسند آئے تجھے جو بات عطا کر
مرا ایمان محکم ہو خدایا، تیقن دے مجھے ایقان دے دے میں تیرا نام لے کر جھوم اُٹھوں، بصیرت کر عطا، وجدان دے دے عطا عشقِ حبیبِ کبریا ہو، سرُور و سرخوشی، عرفان دے دے
محبت کی خدا نے انتہا کی محبت منفرد، ممتاز یکتا حبیبِ کبریا سے کبریا کی
ہے تُو اشعار میں، افکار میں تُو مساجد میں بھی تُو، دربار میں تُو چھُپا ہے کوچہ و بازار میں تُو