خدا سے مانگ صدقہ مصطفیٰ کا
حبیبِ کبریا، خیر الوریٰ کا وہ پائے گا جو مانگے گا خُدا سے وسیلہ گر ہو محبوبِ خدا کا
معلیٰ
حبیبِ کبریا، خیر الوریٰ کا وہ پائے گا جو مانگے گا خُدا سے وسیلہ گر ہو محبوبِ خدا کا
مدینہ اُڑ کے پہنچوں بال و پر دے میں ہوں بے آسرا، بے گھر خدایا مجھے سرکار کے قدموں میں گھر دے
مرے لب پر نبی کی بات دے دیں اُتر جائیں جو ہر اِک سنگدل میں مجھے وہ دل نشیں کلمات دے دیں
محبت کی مجھے سوغات دے دیں سدا لکھوں میں حمد و نعت یا رب زباں پر میری، اپنی بات دے دیں
جفا و جور کی رُوداد سُن لیں ہے اُمت آپ کی کرب و بلا میں کریں امداد اب فریاد سُن لیں
تنِ لاغر میں، جسمِ ناتواں میں مرے اسلوب و اندازِ بیاں میں مرے افکار میں، روحِ رواں میں
زمیں کا حُسن ہے، جنت نشاں ہے یہی مرکز نگاہِ انس و جاں ہے یہی آما جگاہِ عاشقاں ہے
مری آواز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے مری فریاد سُنتے اور دِلاسہ مجھ کو دیتے ہیں نیاز و راز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے
مرے اللہ مجھے نورِ بصر دے مری نعتوں میں یا رب وہ اثر دے جو ہر اک سنگدل کو موم کر دے
وہی تو رہبر دُنیا و دیں ہیں وہی تو رحمۃ اللعالمیں ہیں ظفرؔ وہ ربِّ اکبر کے قریں ہیں