جو احکامِ خدا سے بے خبر ہے
اُسے بھولا ہوا اگلا سفر ہے ابھی سے دوستی کر لو خدا سے خدا کے پاس جانا لوٹ کر ہے
معلیٰ
اُسے بھولا ہوا اگلا سفر ہے ابھی سے دوستی کر لو خدا سے خدا کے پاس جانا لوٹ کر ہے
جمال اُس کا رہے ہر دم نگاہ میں خدا کی یاد سے غافل نہ ہونا سرِ مقتل ہو یا آرام گاہ میں
زماں سارے بنائے ہیں خدا نے مکیں سارے بنائے ہیں خدا نے مکاں سارے بنائے ہیں خدا نے
خدا کی حمد نعتِ مصطفیٰ کی محبت کی خدا نے ابتدا کی حبیبِ کِبریا پر انتہا کی
بطرزِ منفرد لکھوں، بہ انداز جُدا لکھوں خدا جن پر درُودِ پاک بھیجے میں ظفرؔ اُن کو حبیبِ کبریا لکھوں کہ محبوبِ خدا لکھوں
مرے کس کام کی ساری خدائی گوارا ہے ظفرؔ ہر بات مجھ کو نہیں اللہ سے دُوری جُدائی
سرور و کیف میری زندگی میں خدا کی حمد بن جو وقت گزرا وہ گزرا ہے ظفرؔ شرمندگی میں
خدا سے آگہی تب تک نہ ہو گی نہ مخلوقِ خدا راضی ہو جب تک رسائی آپ کی رب تک نہ ہو گی
خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے ظفرؔ عشاق کے ننگے سروں پر خدا کی رحمتوں کا سائباں ہے
عطا کی برملا اپنی محبت کرم مجھ پر کیا ربّ العلیٰ نے ہے دی بے انتہا اپنی محبت