درِ خیر البشر پیشِ نظر ہے
یہیں محبوبِ یزداں جلوہ گر ہے وہی ہے رحمۃ اللعالمیں جو محبت امن کا پیغام بر ہے
معلیٰ
یہیں محبوبِ یزداں جلوہ گر ہے وہی ہے رحمۃ اللعالمیں جو محبت امن کا پیغام بر ہے
بھلا کیوں آپ کے در سے جُدا ہو نوازیں آپ ہر مسکیں گدا کو ظفرؔ پر بھی کرم بہرِ خدا ہو
نعت سرکار کی لکھا کرنا مرا سرمایہ عشقِ احمد ہے مرے مولا اسے سوا کرنا
ذکر سرکار بھی عبادت ہے وقت گزرے ظفرؔ حضوری میں یہی عشاق کی ضرورت ہے
مجھے یارب مدینہ کی گلی دے ظفرؔ کی التجا ہے عاجزانہ مجھے سرمایۂ عشقِ نبی دے نبی کا آستاں عظمت نشاں ہے
ہے احمد آپ کا اِسمِ گرامی مؤدت آپ کی اُمت سے اپنی خدا سے آپ کی ہے ہم کلامی
وہی تو رونقِ کون و مکاں ہے جبیں میری ہے اُن کا آستاں ہے بحمد اللہ حضوری کا سماں ہے
سبھی عشاق کی آنکھوں کا تارا نہیں اب ہجر میں ہوتا گزارا جھلک بس خواب میں ہی اک خدارا
شفا سے بہرہ ور وہ لادوا بیمار ہو جائے مؤدب سرنگوں ہے جو ظفرؔ سرکار کے در پر عجب کیا وہ بھی اِک دن صاحبِ اسرار ہو جائے
شفیع المذنبیں ہیں، شافعِ روزِ جزا بھی ہیں وہ ہیں خیر البشر، خیر الوریٰ، نُورالہدیٰ بھی ہیں وَہ محبوبِ خلائق بھی، وَہ محبوبِ خدا بھی ہیں