مرے پیشِ نظر طیبہ نگر ہے
محبت کا جہاں پیشِ نظر ہے سفر جس کی ہو منزل شہر آقا سفر وہ ہی وسیلۂ ظفرؔ ہے
معلیٰ
محبت کا جہاں پیشِ نظر ہے سفر جس کی ہو منزل شہر آقا سفر وہ ہی وسیلۂ ظفرؔ ہے
بھروں دم اُن کی چاہت کا، مری اوقات ہی کیا ہے کروں دعویٰ محبت کا، مری اوقات ہی کیا ہے میں اُن سے اپنی نسبت کا، مری اوقات ہی کیا ہے
اپنی ہستی مٹائے رہتے ہیں ایسے عشاق ہیں جو مستی میں دل مدینہ بنائے رہتے ہیں
میں درباں ہوں درِ خیر الوریٰ کا غلام اُن کا ہوں میں روزِ ازل سے اُنہیں کا نام لیوا ہوں سدا کا
دردِ دل مانگنا، چشمِ تر مانگنا مانگنا عجز سے سوز سے درد سے دیں گے خیرات خیر البشر مانگنا
مرے دل میں نبی کی یاد رکھنا عطا کرنا مجھے عشق محمد محبت کا نگر آباد رکھنا
دل میں یادِ نبی سمائی ہو ہے دُعائے ظفرؔ کہ ہر لمحہ ارفع تر شانِ مصطفائی ہو
سکوں پایا قرار آیا ہے تب سے خدا کا پیار مانگیں مصطفیٰ سے ظفرؔ عشقِ محمد اپنے رب سے
لمحہ لمحہ، مدام سُوجھے گا لبِ لرزیدہ، چشمِ اشک افشاں یوں دُرود و سلام سُوجھے گا
میں ہوں انجان کچھ خبر دے دیں کیا عجب یارِ غار کا صدقہ وہ تجھے آگہی ظفرؔ دے دیں