عرش ہمدوش حرف آرائی

فرشِ مدحِ رسول پر آئی وہ زمیں بے نمو رہے کیسے جو ترے نقشِ پا نے مہکائی اب سبک بار ہے بہ عز و شرَف زیست تھی زیر بارِ رسوائی منبعِ علم و چشمۂ حکمت آپ نے جو بھی بات فرمائی مانگنے کی نہیں ہوئی حاجت اُن کی بخشش ہے بے طلَب پائی اِک ترے […]

دلیلِ منعِ مثلیّت کلامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

آقا کریم کے ارشادِ گرامی ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘ ( کون ہے تم میں میرے جیسا ) کو ردیف میں لانے کی سعادت دلیلِ منعِ مثلیّت کلامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘ خطِ تنسیخِ مُطلَق ہے مقامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘ عبث ہے التزامِ مبحثِ نور و بشر یکسر حصارِ عجز میں ہیں سب بہ دامِ […]

اے راحتِ جاں ، فرحتِ دل ، حاصلِ دیدہ !

کٹتے نہیں اب ہجر کے لمحاتِ کبیدہ توفیقِ ثنا ہو تو کفِ حرف میں آئیں احساس میں کِھلتے ہوئے گُلہائے چنیدہ موجود بہ ہر طَور ہے طلعت ترے در کی منقوش ترے دَم سے ہے عالَم کا جریدہ ہونا ہے نمو یاب شہِ دیں کے کرم سے ہے دل جو مرا صورتِ یک شاخِ بُریدہ […]

عاجز ہے ترا ناعتِ صد حرفِ فضیلہ

اے اوج نشاں ! صاحبِ اوصافِ جمیلہ انعام ہے ، اکرام ہے ، احسان ہے واللہ اِک فردِ زیاں اور یہ حسانی قبیلہ ! بے وجہ کرم یاب نہیں عبدِ خجل زاد مدحت تری حیلہ ہے ، ترا نام وسیلہ دے اپنی خطا پوش شفاعت کی پنہ دے لے ڈوبیں گے ورنہ مجھے اعمالِ رذیلہ […]

جو دیکھا کرتا تھا صد ہزاراں برس سے جبریل اِک ستارہ

وہ بخششِ عام کا وسیلہ ، وہ رحمتِ کُل کا استعارہ شرَف سے عاری ہے زندگانی ، عمل سے محروم فردِ عصیاں نیازِ مدحت کا سبز کاغذ کرے گا پُورا مرا خسارہ بَلا کی سرکش ہے موجِ دریا ، خطَر فزوں ہے مگر مجھے کیا؟ خیالِ شہرِ نوید پروَر اُڑا کے لے آئے گا کنارہ […]

کشتِ عمل ہے بے ثمر ، مزرعِ دل ہے بے نُمو

میرے کریم ہو عطا بارشِ ابرِ عفو خُو بامِ شبِ خیال پر چمکے نویدِ ماہِ نَو سوزنِ خوابِ وصل سے ہجر کے چاک ہوں رفُو شہرِ سخن میں پے بہ پے تیری عطا کی بارشیں موسمِ دل میں عام ہیں تیری ثنا کے رنگ و بُو اوجِ فضائے نُطق میں اذن و عطا کی تازگی […]

معدنِ لطف سے ، انعام سے وابستہ ہیں

للہِ الحمد ! ترے نام سے وابستہ ہیں دیکھ لیں گے سرِ محشر وہ تری شانِ کرم جو زیاں کار بھی ابہام سے وابستہ ہیں موجۂ اذن سے کُھلتا ہے چمن زارِ سخن سلسلے نعت کے الہام سے وابستہ ہیں ہم پہ لازم ہے ابھی ترکِ خیالِ دیگر ہم ابھی نعت کے احرام سے وابستہ […]

گفتۂ حضرتِ حسان کی تقلید میں ہیں

نعت گو سارے کے سارے صفِ تائید میں ہیں نعت کے نُور سے اُبھریں گے بہ اوجِ طلعت جو ہیولے مرے افکار کی تسوید میں ہیں جس کے ما بعد ہی کُھلتی ہے کتابِ مدحت حرف کے جملہ محاسن اُسی تمہید میں ہیں خوف کیا گرمئ خورشیدِ قیامت کا کہ ہم سایۂ گیسوئے والیل کی […]

نمائشِ نیاز میں نہ خواہشِ فراز میں

لکھی ہے نعت محضرِ نجات کے جواز میں شکستہ خواب کو ترس ، گزشتہ یاد میں تڑپ طلَب کا اندمال ہے طلَب کے ارتکاز میں جمال ، تیری شوکتِ کرم کا ریزہ چینِ خیر کمال ، مجتمع ہے تیری شانِ امتیاز میں زمانہ حیرتی ترے تحیرِ جمال کا ٹھہر گیا ہے وقت تیرے عصرِ دلنواز […]

بے ہُنر ہو کے واہ واہ میں ہیں

جو تری نعت کی پناہ میں ہیں جس کو زیبا ہے شانِ دلداری اُس نگہ دار کی نگاہ میں ہیں آس میں اور اُس سے وابسطہ گرد ہیں اور اُس کی راہ میں ہیں نقشِ نعلین سے ہیں تابندہ شوخیاں جتنی مہر و ماہ میں ہیں ایک نسبت کی ہے طرفداری خام خُو بھی حصارِ […]