نُطق بے ربط ہے اور طبعِ رواں ہے کژمژ

درگہِ نعت میں سب زورِ بیاں ہے کژمژ آپ آئیں گے تو ہو جائے گا تزئیں ساماں سیدی ! یہ جو مرا خیمۂ جاں ہے کژمژ نعت ہی راست تیقن کی ہے ضامن ، ورنہ مَیں گماں زاد ہُوں اور میرا گماں ہے کژمژ معتبر آپ کی نسبت سے ہی ہونگے واللہ ورنہ یہ شوق […]

مدحتِ شاہِ دو عالَم سے معنبر شب و روز

بس وہی ہے مرے باہَر ، مرے اندر شب و روز وہ جو گزرے تھے ترے کوچۂ رحمت میں کبھی بخدا وہ تھے کوئی عرصۂ دیگر شب و روز کیا خبر کب سرِ امکاں کوئی مژدہ چمکے دیکھتا رہتا ہوں تقدیر کے اختر شب و روز ساعتِ جبر میں محصور وظیفہ ہے حیات چھوڑ آیا […]

کرے گا بابِ اجابت کو باز حرفِ نیاز

بہ فیضِ نعت ہے نقشِ فراز ، حرفِ نیاز مَیں بے سبب نہیں بابِ ثنا پہ فرخندہ خُدا کا شکر ، سخن کا ہے ناز حرفِ نیاز حضور نعت نہیں ، حاضری کی حاجت ہے حضور پیش ہے بہرِ نیاز حرفِ نیاز یہی ہے درگہِ مدحت میں خامشی کا نقیب مرے سخن کا ہے تنہا […]

تشبیب تھے ، تمہید تھے ما قبل کے اخیار

تشبیب تھے ، تمہید تھے ماقبل کے اخیار اے مطلعِ دیوانِ ازل ، قافیہ انوار ! بے ربط ہُوا جاتا ہے سانسوں کا تسلسل لازم ہے کہ ڈھے جائے ترے ہجر کی دیوار بے وجہ نہیں پُرسش و رسوائی سے بے غم ہیں برسرِ محشر ، مرے سرکار طرفدار بکھرے نہ کبھی حرف کی حُرمت […]

میانِ روزِ جزا بنے گا گواہ کاغذ

بہ فیضِ مدحت دمک اُٹھا ہے سیاہ کاغذ مَیں نقش کرتا ہُوں اس کے ماتھے پہ مدحِ تازہ بڑھائے جاتا ہے یوں مری عز و جاہ کاغذ وہ کاغذی جادہ جس پہ اُن کا ہے نام رخشاں فلاحِ دارین کی ہے تنہا یہ راہ کاغذ برائے ارقامِ نعت میں صرف سوچتا ہُوں نمایاں کرتا ہے […]

قتیلِ تیغِ فنا ! جادۂ بقا کو ڈھونڈ

برائے خیر ، محمد کے نقشِ پا کو ڈھونڈ کریم رکھتے نہیں ہیں ثنا کو تا بہ طلَب ورائے عرضِ طلب گوہرِ عطا کو ڈھونڈ میانِ حشر شفاعت کی موجِ دل افزا خطا سرشت کی لے گی ہر اِک خطا کو ڈھونڈ فصیلِ فہم سے بالا رضا کی منزل ہے ازل ، ابد کے میاں […]

دھڑکنوں میں سمیٹ ، جاں میں باندھ

وردِ صلِ علیٰ زباں میں باندھ سلکِ قوسِ قزح میں حرف پرو مصرعِ نعت آسماں میں باندھ کھینچ خطِ نیاز چاروں طرف گنبدِ سبز درمیاں میں باندھ مدحِ معراج کے تعامل میں ایک احساس لامکاں میں باندھ ماورائے سخن ہے نعتِ نبی لاکھ تدبیرِ نو ، بیاں میں باندھ طاقِ ایقاں میں رکھ چراغِ ثنا […]

دے اس عدم نژاد مقدر کو بھی نمود

اے رونقِ بہارِ گُلتسانِ ہست و بُود ! کیا اوجِ لا شریک تھا معراج کا سفر گردِ رہِ یقیں تھی امکاں گہِ صعود تجھ ہی سے فیض یاب فقیرانِ بے نوا تیرے ہی ریزہ خوار یہ سب صاحبانِ جُود جس میں ثنا کی کشتئ قرطاس ہے رواں کتنی سخن نواز ہے احساس کی یہ رُود […]

مالکِ جملہ و جاہت ، صاحبِ پہیم صعود

مالکِ جملہ و جاہت ، صاحبِ پیہم صعود سر بہ خَم ہے تیرے آگے سطوتِ نام و نمود اِک وہی ہیں مسندِ تخلیقِ اول کے امیں کُن سے پہلے ہم عدم تھے ، کُن سے پہلے وہ وجود مژدۂ بابِ اجابت شاد رکھتا ہے مجھے جب دعا میں پڑھتا ہُوں مَیں ، اول و آخر […]

جذبِ اظہار سلامت ہے ، سخن ہے آباد

مدحتِ ساقئ کوثر ہے ہمہ خیر کُشاد موجۂ بادِ مدینہ ! کبھی امکان کا لمس دیر سے وقفِ تمنا ہے کوئی ہجر نژاد وہ ترے شہر کو جاتی ہُوئی احساس کی رَو وہ ترے کوچے کو وارفتہ رواں حرف کا زاد مہر آثار ترے دشت کے کِھلتے ہوئے رنگ کُحلِ ابصار ترے شہر کی خاکِ […]