گِھر گِھر آئے پگلے بادل ، برسی میگھا سانوری

گائے پپیہا ، ناچے پُروا ، کُوکے کوئل بانوری میں بِرہا کی ماری ناری سپنے دیکھوں پریت کے کجرا رے نینوں میں دمکیں تیور گھبرو مِیت کے !بستی بستی پیٹ ڈھنڈورا، او ری سکھی من موہنی کرشن پیا کی دُوری سے اَدھ موئی ہے رادھا سوہنی موہے ساجن! مانگ میں جب سیندور نہیں ترے نام […]

انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا

مُحمّد اظہار الحق اور ثروت حُسین کے لیے(اُنہی کی زمین میں ھدیۂ محبت) انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا رس رُوح تلک بوسے کی تاثیر سے پہنچا پھر مُند گئیں دروازے کو تکتی ھُوئی آنکھیں پیغام رساں تھوڑی سی تاخیر سے پہنچا عُجلت میں پڑے لڑکو ! سُنو میری کہانی مَیں عشق تلک […]

ثبوت کوئی نہیں ہے ، گواہ کوئی نہیں

گناہگارو ! تمہارا گناہ کوئی نہیں فصیل و بام نہ دیوار و در نہ بندِ قبا نگاہِ عشق میں حدِ نگاہ کوئی نہیں ترے بدن سے مرے دل تلک ہیں خواب ہی خواب مگر ہمارے لیے خوابگاہ کوئی نہیں ہماری خاک کرے گی سفر ستارہ وار ہماری آخری آرام گاہ کوئی نہیں پھر ایک دن […]

حُسن کو عیب سے خالی نہ سمجھیے ، صاحب

!حُسن کو عیب سے خالی نہ سمجھیے ، صاحب !دیکھیے، خود کو مثالی نہ سمجھیے، صاحب در پہ آیا ہوا درویش بھی ہو سکتا ہے !در پہ آئے کو سوالی نہ سجھیے، صاحب عین ممکن ہے کہ اِک روز میں اُڑنے لگ جاؤں !خوف کو بے پر و بالی نہ سمجھیے، صاحب خود پہ گُذری […]

وہ رات میاں رات تھی ایسی کہ نہ پوچھو

پہلی ہی ملاقات تھی ایسی کہ نہ پوچھو پانی ہی نہیں، آگ بھی تھی اُس کی پُجارن اُس بُت میں کوئی بات تھی ایسی کہ نہ پوچھو انگ انگ میں وہ رنگ کہ ہوتی تھی نظر دنگ آنکھوں کی مدارات تھی ایسی کہ نہ پوچھو حیرت کو بھی حیرت تھی کہ دیکھے بھی تو کیا […]

اس لیے بھی دُعا سلام نہیں

اُن کو فی الحال مجھ سے کام نہیں ہو گیا دل پہ یار کا قبضہ اب یہ جاگیر میرے نام نہیں !یُوں نہ دُھتکارئیے مجھے، صاحب میں گدا ہوں ، کوئی غلام نہیں خاص رستہ ہے ، دیکھ کر چلیے دل مِرا شاہراہِ عام نہیں تُو میاں اتنی دوڑ دُھوپ نہ کر حُسن کیا ، […]

جاہ و حشم نہ لعل و جواہر کی بات ہے

انعامِ عشق صرف مقدر کی بات ہے جس وقت چاہو اُٹھ کے مرے دل میں آ رہو چھوڑو تکلفات میاں! گھر کی بات ہے پھیلا تو پھیلتا ہی گیا لمحۂ فراق تُو نے تو کہہ دیا تھا کہ پل بھر کی بات ہے عالم پناہ! عشق پہ چلتا نہیں ہے زور یہ تو خطا مُعاف […]

لے آنکھ موند لی دمِ دیدار، اور حُکم ؟

اے پردہ داریٔ لب و رُخسار! اور حُکم ؟ فرماں تھا آپ کا کہ کروں اپنی سرزنش میں سر ہی کاٹ لایا ہوں، سرکار! اور حُکم ؟ پہلو میں چاند لایا ہوں ، شیشے میں چاندنی آوارگانِ قریۂ بیدار! اور حُکم ؟ تُو نے دیا تھا حُکم کہ میں جینا چھوڑ دوں تعمیل ہو چکی […]

اکڑتا پھرتا ہوں میں جو سارے جہاں کے آگے

تو راز یہ ہے کہ روز جُھکتا ہوں ماں کے آگے وہ ٹال دیتا ہے ایک سورج کی اشرفی پر اگرچہ روتا ہوں رات بھر آسماں کے آگے ہوا چلی ، بال اُڑے ، دکھائی دیا وہ ماتھا بزرگ بھی جُھک گئے پھر اُس نوجواں کے آگے سکوت اُس کا بلیغ تر تھا مرے سُخن […]

دیدۂ خُشک آج بھر آیا

ہجر کے پیڑ پر ثمر آیا کوئی صورت نظر نہ آتی تھی پھر اچانک ہی تُو نظر آیا گرچہ سارا قصور تیرا تھا سارا اِلزام میرے سر آیا پہلے میں رُک کے دیکھتا تھا اُسے آج دیکھے بِنا گُزر آیا میں تو لوٹ آیا لیکن اپنا آپ اُس کی دہلیز پر ہی دَھر آیا ہو […]