کوئی فخر زہد و تقویٰ، نہ غرورِ پارسائی

مجھے سب خبر ہے کیا ہے مرے نفس کی کمائی مجھے جب کبھی اندھیرے ملے راہِ جستجو میں نئی مشعل تمنا ترے نام کی جلائی اسے کیوں نہ سر پہ رکھوں، یہ جزائے بندگی ہے ترے نام سے مزیّن مرا کاسۂ گدائی وہ جو ضبط سے نہ نکلا، کبھی نطق تک نہ پہنچا اُسی حرفِ […]

بے سبب ہم بھی تہ دام نہ آئے ہوں گے

فرش نے عرش کے امکان دکھائے ہوں گے سر جھکاتے ہیں جو ہر سنگ پہ کہہ کر لبیک خوئے تسلیم تری بزم سے لائے ہوں گے جن کے سینے میں دھڑکتا ہو کسی اور کا دل لوگ ایسے بھی تو قدرت نے بنائے ہوں گے اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت جس جگہ روشنی […]

(برگد جیسے لوگوں کے نام)

کوئی بھی رُت ہو چمن چھوڑ کر نہیں جاتے چلے بھی جائیں پرندے، شجر نہیں جاتے ہوا اُتار بھی ڈالے اگر قبائے بدن بلند رکھتے ہیں بازو بکھر نہیں جاتے گئی رتوں کے سبھی رنگ پہنے رہتے ہیں شجر پہ رہتے ہیں موسم گذر نہیں جاتے خمیر بنتے ہیں مٹی کا ٹوٹ کر بھی شجر […]

کسی کو روک لیں ہم، ایسے کم نگاہ نہیں

مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں ق ستم تو یہ ہے کہ دنیا تمہارے زیرِ ستم تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں کھلا ہے کون سا رستہ سپاہِ جبر سے آج بچا ہے کون سا قریہ جو رزم گاہ نہیں؟ متاع ہستی کہاں رکھئے اب بجز مقتل کسی طرف بھی کوئی گوشۂ پناہ […]

نہیں لیا کوئی احسانِ باغباں ہم نے

بھری بہار میں چھوڑا ہے گلستاں ہم نے سفر میں رہ گئے پیچھے مگر یہ کم ہے کیا ہر ایک موڑ پہ چھوڑے ہیں کچھ نشاں ہم نے تمھارے نام کی افشاں سے جو سجائی تھی کسی کی مانگ میں بھر دی وہ کہکشاں ہم نے بچا کے لائے تھے بس اک چراغ آندھی سے […]

نصیب ہو جو کبھی اُس کی آرزو کرنا

متاعِ دیدہ و دل صرفِ جستجو کرنا گمان تک بھی نہ گزرے کہ غیر شاہد ہے یہ جس کا سجدہ ہے بس اُس کے روبرو کرنا ملیں گے حرفِ عبادت کو نت نئے مفہوم کبھی تم اُس سے اکیلے میں گفتگو کرنا ہزار رہزنِ ایمان سے ملے گی نجات کوئی سفر ہو عقیدت کا قبلہ […]

ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے

یہ راستہ لیکن کسی رہبر کی عطا ہے کب میری صفائی کوبھلا مانے گی دنیا الزام ہی جب ایسے فسوں گر کی عطا ہے جچتے نہیں آنکھوں میں شبستان و گلستاں یہ دربدری ایسے کسی در کی عطا ہے ساحل کے خزانے نہیں دامن میں ہمارے جو کچھ بھی ملا، گہرے سمندر کی عطا ہے […]

(سانحہ گیارہ ستمبر کی تیسری برسی پر)

مری ہمنوائی میں جب تلک مرے یارِ عربدہ جُو نہ تھے پسِ پردہ سب تھے حریفِ جاں، کبھی روبرو تو عدو نہ تھے گو خبر تھی اہلِ نظر کو سب، پہ بھرم تھا پھر بھی جہان میں تہی دامنی کے یہ تذکرے کبھی زیبِ قریہ و کُو نہ تھے مرے دوستوں کے وہ مشورے، صفِ […]

لوگ کیا کیا گفتگو کے درمیاں کھلنے لگے

ذکر یاراں چل پڑا تو راز داں کھلنے لگے پھر پڑاؤ ڈل گئے یادوں کے شامِ ہجر میں اور فصیلِ شہرِ جاں پر کارواں کھلنے لگے تنگ شہروں میں کھلے ساگر کی باتیں کیا چلیں بادِ ہجرت چل پڑی اور بادباں کھلنے لگے جب سے دل کا آئنہ شفاف رکھنا آ گیا میری آنکھوں پر […]

ہدیۂ اشک ملے، درد کی سوغات ملے

کاسۂ عشق ہے خالی کوئی خیرات ملے بھر دے کشکول سماعت کو ہمیشہ کے لئے لبِ لعلیں سے ترے ایسی کوئی بات ملے کھیل چلتا ہی رہے گرچہ لپٹ جائے بساط مات ہونی ہے تو پھر ایسی کوئی مات ملے خاک اُڑانے کو ملی وسعتِ آشوبِ جہاں غم اٹھانے کو ترے شہر میں دن رات […]