شاد و آباد رہو، وقت سدا خوش رکھے

تم جہاں جاؤ تمہیں میری دعا خوش رکھے فکرِ فردا سے بجھے جاتے تھے دل سینوں میں حوصلہ تم نے دیا، تم کو خدا خوش رکھے پائیدانوں پہ ترقی کے ملے عزت و نام بامِ شہرت پہ محبت کی ہوا خوش رکھے آگہی رستہ اُجالے، تمہیں دیکھے دنیا سازگاری ملے، منزل کی فضا خوش رکھے […]

دوستی گردش کی میرے ساتھ گہری ہو گئی

دل تھما تو رنگتِ حالات گہری ہو گئی کیسے اندازہ لگاتا اپنی گہرائی کا میں اپنی تہہ تک جب بھی پہنچا ذات گہری ہو گئی زندگی نے ہونٹ کھولے لفظ سادہ سے کہے تجربے نے آنکھ کھولی بات گہری ہو گئی چاندنی کی آس میں ہم دیر تک بیٹھے رہے ڈھونڈنے نکلے دیا جب رات […]

نشانِ منزلِ من مجھ میں جلوہ گر ہے تو

مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ ہمسفر ہے تو سفالِ کوزۂ جاں! دستِ مہر و الفت پر تجھے گدائی میں رکھوں تو معتبر ہے تو علاجِ زخمِ تمنا نے مجھ کو مار دیا کسی کو کیسے بتاؤں کہ چارہ گر ہے تو چراغِ بامِ تماشہ کو بس بجھا دے اب میں جس مقام پہ بیٹھا […]

سادگی ہوئی رخصت، زندگی کہاں جائے

زندگی کی خاطر اب آدمی کہاں جائے جرم ہے دیا رکھنا شب پرست گلیوں میں اس قدر اندھیرا ہے، روشنی کہاں جائے ہر طرف مکان اونچے چیختی صداؤں کے آسمان تکنے کو خامشی کہاں جائے آنگنوں میں پہرے ہیں رات بھر اجا لوں کے دشت میں نہ جائے تو چاندنی کہاں جائے سُر تو ساتھ […]

منظرِ دشتِ تگ و تاز بدل کر دیکھا

رزق کو رفعتِ پرواز بدل کر دیکھا سلسلہ کوئی ہو انجام وہی ہوتا ہے ہم نے سو مرتبہ آغاز بدل کر دیکھا بس وہی ہجر کے سرگم پہ وہی درد کی لے مطربِ عشق نے کب ساز بدل کر دیکھا میرے شعروں سے ترے رمز و کنائے نہ گئے میں نے ہر مصرعۂ غماز بدل […]

نہ وہ ملول ہوئے ہیں، نہ ہم اداس ہوئے

مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے یہ […]

وہ کلاہِ کج، وہ قبائے زر، سبھی کچھ اُتار چلا گیا

ترے در سے آئی صدا مجھے، میں دِوانہ وار چلا گیا کسے ہوش تھا کہ رفو کرے یہ دریدہ دامنِ آرزو میں پہن کے جامۂ بیخودی سرِ کوئے یار چلا گیا مری تیز گامیِ شوق نے وہ اُڑائی گرد کہ راستہ جو کھلا تھا میری نگاہ پر وہ پسِ غبار چلا گیا نہ غرورِ عالمِ […]

دیارِ شوق کے سب منظروں سے اونچا ہے

یہ سنگِ در ترا سارے گھروں سے اونچا ہے مقامِ عجز کو بخشی گئی ہے رفعتِ خاص جو سر خمیدہ ہے وہ ہمسروں سے اونچا ہے فرازِ طور کی خواہش نہ کر ابھی اے عشق یہ آسمان ابھی تیرے پروں سے اونچا ہے خدا مدد! کہ یہ شیطانِ نفسِ امّارہ مرے اُچھالے ہوئے کنکروں سے […]

اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا

خاک تھا میں، پھول کے انداز میں رکھا گیا حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے خاکدانِ سیم و زر آغاز میں رکھا گیا ق اک صلائے عام تھی دنیا مگر میرے لئے اک تکلف دعوتِ شیراز میں رکھا گیا ایک خوابِ آسماں دے کر میانِ آب و گِل بال و پر بستہ […]