لفظوں کو اعتماد کا لہجہ بھی چاہئے
ذکر سحر بجا ہے یقین سحر بھی ہے
معلیٰ
ذکر سحر بجا ہے یقین سحر بھی ہے
ایسے میں بھلا کیسے ہو اقرار محبت
تیری آنکھیں ترا چہرہ ترا لہجہ دیتا
اب ایسا لہجہ اپناؤں گی میں بھی
اک نئی طرز نوا ایجاد کر لیتے ہیں ہم
بلا کا سایہ مرے آس پاس کیسا ہے یہ فیصلہ ہے کہ ہم اپنے حق سے باز آئیں تو پھر یہ لہجہ یہ ترا، التماس کیسا ہے
بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح
اُس کا لہجہ بتا رہا ہے مجھے اب ضرورت نہیں رہی میری
ورنہ کسی کو تیری آنکھیں کسی کو لہجہ مارتا ہے
آپ لہجہ سنبھالیے اپنا