وفورِ شوق میں ہے، کیفِ مشکبار میں ہے

حیاتِ نعت مری عرصۂ بہار میں ہے یہ جاں، یہ شوق بہ لب، تیری رہگذارِ ناز یہ دل، یہ دید طلب، تیرے انتظار میں ہے تری عطا ترے الطافِ بے بہا مجھ پر مری طلب ترے اکرام کے حصار میں ہے ترے کرم، تری بخشش کا کب، کہاں ہے شمار مری خطا ہے جو حد […]

شایانِ شان کچھ نہیں نعتوں کے درمیاں

اِک بے بسی سی ہے مرے حرفوں کے درمیاں لکھنے لگا ہُوں بوند سمندر کے سامنے سہما ہُوا ہے شعر بھی بحروں کے درمیاں جلوہ فگن حضور، صحابہ کے بیچ میں ہے ماہتاب جیسے ستاروں کے درمیاں خالص معاملہ یہ حبیب و محب کا ہے غلطاں ہے سوچ کیوں بھلا ہندسوں کے درمیاں ساری متاعِ […]

محورِ دو سرا پہ قائم ہے

زیست ان کی رضا پہ قائم ہے نظمِ نطق و نظامِ حرف و ہنر تیری مدح و ثنا پہ قائم ہے نیلگوں آسمان کی رفعت آپ کے نقشِ پا پہ قائم ہے موجۂ خندۂ گلِ خوش رنگ تیرے لطف و عطا پہ قائم ہے یہ نظامِ جہانِ عفو و کرم آپ ہی کی رضا پہ […]

وہ میری نعت میں ہے، میری کائنات میں ہے

حیات محوِ سفر اُس کے التفات میں ہے بس ایک لمحے کو سوچا تھا اُس کا اسمِ کریم وہ روشنی ہے کہ تا حدِ ممکنات میں ہے اِسے مدینے کی آب و ہَوا میں لوٹا دے سخی یہ طائرِ جاں سخت مشکلات میں ہے جو تیری مدح کی دہلیز جا کے چھو آئے کمال ایسا […]

یہ تیری نعت کا منظر کہاں کہاں چمکا

ترا کرم ، مرے حرفوں کے درمیاں چمکا یہ تیرا حرفِ ترنم کہ رتجگے مہکے یہ تیرا اذنِ تکلّم کہ بے زباں چمکا سنبھال رکھا تھا دل کو بہ طرزِ طوقِ جتن اشارہ ملتے ہی یہ تو کشاں کشاں چمکا وہ آفتابِ نبوت ، وہ وجۂ کون و مکاں حرا کی کوکھ سے اُبھرا تو […]

مَیں مدینے میں ہُوں اور میرا گماں مجھ میں ہے

ایک لمحے کو لگا سارا جہاں مجھ میں ہے پورا منظر ہے کسی اور تناظر میں رواں وہ جو تھا پہلے نہاں اب وہ عیاں مجھ میں ہے سامنے ُگنبدِ خضریٰ کے کھڑے سوچتا ہُوں آسماں زاد کوئی خواب رواں مجھ میں ہے حرف کے چہرۂ ادراک پہ آنکھیں بن کر کوئی آواز پسِ صوتِ […]

کریم اپنی ہی خاکِ عطا پہ رہنے دے

زمیں سے آیا ہوا ہوں سما پہ رہنے دے بکھر نہ جاؤں کہیں برگِ بے شجر کی طرح کریم، شاخِ کرم کی وفا پہ رہنے دے بہت ہی تیز ہواؤں نے گھیر رکھا ہے کریم ، ہاتھ مرے دل دِیا پہ رہنے دے خطائیں لایا ہوں نعتوں کی طشت میں رکھ کر یہ ایک پردہ […]

گل و گلاب، عنادل کی نغمگی تجھ سے

بہارِ تازہ کے پہلو میں زندگی تجھ سے جہانِ حسن کو ملتی ہے تیرے اسم سے خیر وجودِ عشق نے پائی ہے تازگی تجھ سے عروسِ شب کے سرہانے ترے کرم کا غلاف نگارِ صبح کے دامن میں روشنی تجھ سے مجال شاہوں کی، اُس سے کریں شہی کی بات ترے فقیر کو حاصل ہے […]

تمازتوں میں کرم کی ٹھنڈی پھوار بطحا

اُجاڑ بنجر زمیں پہ فصلِ بہار بطحا ہر ایک منظر ہی اُس کے منظرکا عکسِ تاباں ہر ایک منظر کو دے رہا ہے نکھار بطحا بہت ہی دلکش، نجوم جیسے ہیں سنگ تیرے بہت ہی نازک مزاج ہیں تیرے خار بطحا عجب نہیں ہے کہ تیری جانب کھچے چلے ہیں کہ بے قراروں کی ُتو […]

چشمۂ جود و سخاوت ہیں ترے گیسوئے نور

قاسمِ نکہت و رنگت ہیں ترے گیسوئے نور شانۂ نور پہ وہ چہرۂ انور کے قریں خَم بہ خَم گوشۂ حیرت ہیں ترے گیسوئے نور رنگ میں جیسے کوئی رنگوں کا بازار ُکھلے حسن میں حدِّ نہایت ہیں ترے گیسوئے نور تہہ بہ تہہ، معنیٰ بہ معنیٰ ہے کرشمہ سازی مصدرِ عِلمِ بلاغت ہیں ترے […]