ردائے شوق میں مدحت کے تار بن، مرے دل

ردائے شوق میں مدحت کے تار بن ، مرے دل گدائے شہرِ سخن ہوں ، مری بھی سُن ، مرے دل حروفِ عجز کو کیفِ کرم کے جام پلا رہے سوار ہمیشہ ثنا کی دُھن ، مرے دل یہ شوق ہیں انہیں ان کی گلی کا موسم دے یہ شعر ہیں انہیں پلکوں سے جا […]

ہم سزاوار ایسے کب ہوئے ہیں

تیرے الطاف بے سبب ہوئے ہیں ورنہ ہوتے کہاں گناہ معاف اُن کی مرضی ہوئی ہے تب ہوئے ہیں اُن کی بخشش رہی مدام بہ فیض ہم سوالی ہی کم طلب ہوئے ہیں رفتگاں، بے نشاں حقیقت تھے ترے ہونے سے جیسے سب ہوئے ہیں اِک ہوائے غضب میں اُڑ جاتے بچ رہے ہم کہ […]

امکان جس قدر مرے صبح و مسا میں ہیں

شکرِ خدا کہ سارے حریمِ ثنا میں ہیں خود رفتگی کی صورتِ حیرت ہے چار سُو منظر نظر نواز ترے نقشِ پا میں ہیں شاید کہ تھام لائی ہے خاکِ کرم کا لمس احساس ہُوبہُو وہی بادِ صبا میں ہیں اِک رتجگے کے روگ میں ڈھلتی رہی حیات تسکیں کے سلسلے ترے خوابِ لقا میں […]

مَیں کم طلب ہوں پہ شانِ عطا تو کم نہیں ہے

حضور آپ کے ہوتے ذرا بھی غم نہیں ہے وہ جاں نہیں جِسے حاصل نہیں خرام ترا وہ دِل نہیں جو تری بارگہ میں خَم نہیں ہے جو تیری مدح نہ کرتی ہو وہ زباں کیسی جو تیری نعت نہ لکھتا ہو وہ قلم نہیں ہے بقیع و روضہ پہ موقوف کیوں کہ شہرِ نبی […]

زیست کا لمحۂ ُپر کیف ہے کعبے کا طواف

حاصلِ عمرِ رواں ہے ترے کو چے کا طواف جسم کو تھام کے لے آیا ہُوں واپس، لیکن دل کو کرنا تھا ابھی تیرے مدینے کا طواف سب زمانوں کی بہاروں پہ ہے واجب واللہ دشتِ طیبہ کے مہکتے ہوئے کانٹے کا طواف رات تو بِیت گئی دید کے انعام کے ساتھ صبح پھر کرتی […]

خامۂ نور سے خیالِ نور

نعت گویا ہے اِک کمالِ نور پورا قرآن ہی تری سیرت آیتیں ہیں تری خصالِ نور مَیں اندھیروں سے دور ہوں ، واللہ ساتھ رہتا ہے وہ مآلِ نور روشنی کے سبھی حوالے ُحسن تیری زُلفوں کی کب مثالِ نور پھر تو ایسے نہیں ہوا ، جیسے زُلف و رُخ میں تھا اتصالِ نور بوسۂ […]

ہو گئے نطق کے پیرایۂ اِظہار تمام

حد سے باہَر ہی رہے آپ کے انوار تمام ساعتِ رؤیتِ اوّل ہی تھی ایمان نواز خود ہی اقرار میں ڈھل جاتے تھے انکار تمام آپ کی نعت ہے تدبیرِ شفائے ُکلی آپ کے ذِکر سے کھِل اُٹھتے ہیں بیمار تمام روشنی، رنگ، یہ نعتیں ، یہ درود اور سلام آپ کے آنے کے ہوتے […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]

عیسوی سال کا جب پانچ سو ستّر اُترا

رات کے پچھلے پہر نور کا پیکر اُترا میں اُسے ڈھونڈ رہا تھا کسی جانب، لیکن وہ مری روح میں ڈھل کر مرے اندر اُترا وہ عجب نام ہے جب بھی اسے جپنا چاہا وہ محمد ہے مرے لب پہ مکرّر اُترا کاسۂ دل میں تری یاد کی شبنم مہکی اُفقِ دید پہ حیرت زدہ […]

کمالِ عجز سے ہے، عجزِ باکمال سے ہے

یہ نعت ہے، یہ عقیدت کے خدو خال سے ہے مجھے بھی ناجی سفینہ میں رکھ مرے مولا مری بھی نسبتِ نوکر انہی کی آل سے ہے سخی پہ ہے وہ جسے، جیسے، جب، عطا کر دے عطا کا واسطہ عرضی سے ہے نہ حال سے ہے بہار کو ترے کوچے سے ہے وہی نسبت […]