اردوئے معلیٰ

Search

ہم سزاوار ایسے کب ہوئے ہیں

تیرے الطاف بے سبب ہوئے ہیں

 

ورنہ ہوتے کہاں گناہ معاف

اُن کی مرضی ہوئی ہے تب ہوئے ہیں

 

اُن کی بخشش رہی مدام بہ فیض

ہم سوالی ہی کم طلب ہوئے ہیں

 

رفتگاں، بے نشاں حقیقت تھے

ترے ہونے سے جیسے سب ہوئے ہیں

 

اِک ہوائے غضب میں اُڑ جاتے

بچ رہے ہم کہ با ادب ہوئے ہیں

 

بے بسی تیری مدح کیا کہتی

تذکرے یوں تو روز و شب ہُوئے ہیں

 

پھر سے اِک مژدۂ سفر آقا

حوصلے پھر سے جاں بہ لب ہوئے ہیں

 

اُن کی گلیوں میں گھومنے کی طلب

ہم بھی مقصودؔ کچھ عجب ہوئے ہیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ