معرفت کے باب کا عنوان ہیں نواب شاہ

سالک و مجذوب کی پہچان ہیں نواب شاہ عارفوں کی بزم کی اک شان ہیں نواب شاہ عاشقوں کا دین اور ایمان ہیں نواب شاہ واقف اسرار ھو ہیں آشنائے رمزِ حق کشورِ لاھوت کے سلطان ہیں نواب شاہ زندگی کا لمحہ لمحہ پرتو خلق عظیم سنت سرکار کا عرفان ہیں نواب شاہ اے امانت […]

ہر مراد منہ مانگی بالیقیں وہ پائیں گے

جو بھی میرے خواجہ کے در سے لو لگائیں گے غور سے وہ سنتے ہیں اور کام آتے ہیں داستانِ رنج و غم ہم انہیں سنائیں گے ہوگا خوشنما منظر اس اجاڑ بستی کا میرے دل کی نگری کو آپ جب بسائیں گے دامنِ نظر اپنا خوب بھر کے لوٹوں گا صدقۂ جمال اپنا آپ […]

غلامی سید بغداد کی جس نے بھی پائی ہے

شہہ کونین کی دہلیز تک اسکی رسائی ہے علی کے لعل ہیں اور فاطمہ کی آنکھ کے تارے وجود غوث اعظم عکس ذات مصطفائی ہے سہارا بے سہاروں کا وہ آخر کیوں نہ بن جائیں ملی غوث الوری کو ارث میں مشکل کشائی ہے کہا جس وقت قدمی ہذہ سرکار جیلاں نے ہزاروں گردنیں خم […]

غم حسین میں جو دن گزارتے ہوں گے

وہ اپنے دل کا مقدر سنوارتے ہوں گے تمہارے در کی غلامی ہے جن کی قسمت میں وہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مارتے ہوں گے جہاں جہاں بھی زمانے میں ہیں خدا والے مرے حسین پہ جانیں نثارتے ہوں گے جو پاتے ہوں گے علی والے کربلا تجھ کو ترا غبار پلک سے […]

زمانہ ہم سے نگاہیں ملا نہیں سکتا

حسینیوں کو کوئی بھی ڈرا نہیں سکتا کٹا کے سر مرے شبیر نے کیا اعلان کوئی چراغ صداقت بجھا نہیں سکتا حسین ہم تری زلفوں کے سائبان میں ہیں ہمارا حوصلہ کوئی گھٹا نہیں سکتا غم حسین کی دولت نہیں ہے جس کے پاس مزا حیات کا وہ شخص پا نہیں سکتا مرے حسین سے […]

حسین کہیے جنہیں مصطفیٰ کے سائے ہیں

یہ وہ ہیں جن کے سب انداز رب کو بھائے ہیں انھیں کے واسطے آئے ہیں خلد سے میوے انہیں کے واسطے جبریل جوڑے لائے ہیں انھیں کے کاندے پہ دین خدا کا ہوگا علم وہ جن کو دوش پہ اپنے نبی بٹھائے ہیں حسین روح عبادت حسین جان حیات سراپا عکس پیمبر وہ بن […]

ملی جب سے غلامی حضرت شبیر کے در کی

چھڑی ہے قدسیوں میں گفتگو میرے مقدر کی اٹھے طوفان غم یا آندھیاں آلام کی آئیں رہے شمع محبت دل میں روشن ابن حیدرکی جو دشت کربلا میں خون کی بوندوں نے لکھی ہیں کبھی وہ مٹ نہیں سکتیں لکیریں ہیں وہ پتھر کی لہو تازہ ٹپکتا ہے ابھی تک زخم باطل سے یہی تو […]

اس ادا سے تاجدار کربلا سجدے میں ہے

ہو بہو جیسے حبیب کبریا سجدے میں ہے تیرے نیزے اور تلواریں نہ پھیریں گی اسے اے ستم پیشہ عبادت آشنا سجدے میں ہے آسماں حیرت زدہ ہے اس نماز عشق پر پشت پرحسنین ہیں شاہِ ہدیٰ سجدے میں ہے کربلا کی ریت پر ایسا گل وَانحر کھلا جس کے آگے ہر چمن زار رضا […]

غم حسین میں دامن بھگائے جاتے ہیں

ہمیشہ خون کے آنسو بہائے جاتے ہیں بجھا بجھا کے وہ خود اپنی زندگی کے دیے چراغ حق و صداقت جلائے جاتے ہیں یہی ہے رسم محبت ازل سے تا امروز جو حق پرست ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں نہ داغ آئے شریعت کے پاک دامن پر اسی لیے وہ لہو میں نہائے جاتے ہیں […]

جس کے سینے میں غمِ شاہِ شہیداں ہو گا

اس کی بخشش کا یہی حشر میں ساماں ہو گا آل سرکار سے ہے تجھ کو اگر بغض و عناد پھر تو ہرگز نہ مکمل ترا ایماں ہو گا جس کو زہرا کے جگر پاروں سے الفت ہو گی میرا ایماں ہے وہی شخص مسلماں ہو گا ڈھائے جو ظلم و ستم سرور دیں کے […]