نُور لمحات میں اب عشق سویرا ہو گا

دل کی بستی میں فقط آپکا ڈیرا ہو گا دل کی اے میرِ سفر مجھ کو خبر کوئی نہیں درِ آقا سے ملا ہے تو یہ میرا ہو گا دمِ رُخصت مرے آقا یہ یقیں ہے مجھ کو ذہن میں بس تری یادوں کا بسیرا ہو گا سرورِ دین کی اُلفت ہے اگر قبلہِ جاں […]

آقا حصارِ کرب سے ہم کو نکال دیں

آقا یہ عہدِ تیرہ شبی ہم سے ٹال دیں آقا ہمارے قلب میں دیں کی تڑپ نہیں ویران سی حیات کو حسن و جمال دیں آقا ہماری سوچ ہے ذاتی مفاد تک تاریکیِ خیال ہماری اُجال دیں آقا حضور سہمی ہوئی ہے یہ زندگی اس کو بھی آپ عزت و رحمت کی شال دیں آقا […]

مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

صدائے درد و الم بس مرے نبی تک ہے بڑے وثوق سے تاریخ نے یہ لکّھا ہے کہ عظمتوں کا سفر اُن کی پیروی تک ہے اکیلے نکلے تھے غارِ حرا سے خالی ہاتھ جہانِ کفر کو دھڑکا مگر ابھی تک ہے نبی کے قرب کی منزل ابد ابد کی خوشی دکھوں کا سلسلہ دُنیا […]

دشمنِ جاں بھی ترے مدح سرا ہو جائیں

دیکھ کر حُسن فدا ارض و سما ہو جائیں سادگی وہ کہ دو عالم میں نہیں مِثل کوئی رُعب سے کُفر کے اوسان خطا ہو جائیں جس درِ پاک پہ کرتے ہیں ملائک بھی سلام ہم بھی اُس در پہ چلو محوِ ثنا ہو جائیں ہم کو آواز نہ دے شوکتِ دُنیا سُن لے اُن […]

مدینہ سجدہ گاہِ عشق و مستی

مدینہ رفعت و توقیرِ ہستی مدینہ نازشِ انوارِ عالم مدینہ حسن کی تابندہ بستی مدینہ سائبانِ عفو و رحمت مدینہ تشنگی میں جامِ فرحت مدینہ ہے ضمانت عافیت کی مدینہ بخشے ہر ذرے کو ثروت مدینہ مرکزِ امن وسکوں ہے مدینہ محورِ شوق و جنوں ہے مدینہ پیرہن ہے شفقتوں کا مدینہ مرہمِ زخمِ دروں […]

تیرے ہر حکم پر ہوں فدا یا نبیسارے ارماں مرے اور سبھی راحتیں

تیری عظمت کا صدقہ حبیبِ خدا دو جہاں میں مجھے بھی ملیں عزتیں تیری تقلید میں جستجو میں تری میرا شوقِ طلب بھی کرے ہجرتیں آل و اصحاب کے گلشنِ فیض سے میرے کردار کو بھی ملیں خوشبوئیں

دل کا تو ہی قرار ہے آقا

تو ہی جانِ بہار ہے آقا تیرے طیبہ نگر کے کیا کہنے حسن کا شاہکار ہے آقا سائلِ در کو ناز ہے جس پر وہ ترا ہی دیار ہے آقا دشمنِ جاں کے واسطے بھی دُعا یہ ترا ہی شعار ہے آقا دیکھ کر تیری سیرتِ طائف درد بھی اشک بار ہے آقا بات لفظوں […]

کر رہے ہیں اِس جہاں میں جس کی ہم مدح و ثنا

شافعِ روزِ جزا ہے وہ حبیبِ کبریا چہرہِ انور کے گر ہو رُو بُرو ماہِ تمام وہ بھی اِک سائل ہی لگتا ہے تمہارا دِلربا تیری چشمانِ کرم میں جھانک لے گر زندگی پھر کہاں شکوے دکھوں کے پھر کہاں خوفِ قضا تیرے اُبرو کے اشارے کی یہ کیسی شان ہے مال و دولت عقل […]