اردوئے معلیٰ

مرے جہان کی وسعت تری گلی تک ہے

صدائے درد و الم بس مرے نبی تک ہے

 

بڑے وثوق سے تاریخ نے یہ لکّھا ہے

کہ عظمتوں کا سفر اُن کی پیروی تک ہے

 

اکیلے نکلے تھے غارِ حرا سے خالی ہاتھ

جہانِ کفر کو دھڑکا مگر ابھی تک ہے

 

نبی کے قرب کی منزل ابد ابد کی خوشی

دکھوں کا سلسلہ دُنیا کی زندگی تک ہے

 

درِ حضور پہ علم و شعور گر نہ جھُکے

تو دسترس تری کیسے پھر آگہی تک ہے

 

بچانا خود کو تکبر کی سب اداؤں سے

یہ اُن کی نظرِ کرم تیری عاجزی تک ہے

 

کوئی نہ مفلسِ دنیا ہمیں کہے لوگو

پہنچ ہماری بھی سب سے بڑے سخی تک ہے

 

شکیلؔ نعتِ نبی ہو تو اس حضوری سے

زمانہ یہ نہ کہے بات شاعری تک ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ